Get Alerts

پروفیسر اور سینئر صحافی طارق محمود مرحوم: 'یوں لگتا ہے کہ والد کو کھو دیا'

پروفیسر اور سینئر صحافی طارق محمود مرحوم: 'یوں لگتا ہے کہ والد کو کھو دیا'
گزشتہ چند ہفتے قبل کورونا کے باعث سانس کی شکایت پر پروفیسر اور سینئر صحافی طارق محمود ملک کو ہولی فیملی اسپتال میں داخل کیا گیا تھا جہاں ان کی طبیعت بہتر ہوئی مگر پھر دوبارہ وینٹیلر پر گئے اور انتقال کرگئے۔ گزشتہ روز جمعہ کو انکی تدفین کورونا ایس او پیز کے تحت آبائی شہر تلہ گنگ میں کردی گئی۔ طارق محمود ملک نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں مختلف مضامین پڑھاتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مختلف قومی اخبارات اور چینلز سے بھی وابستہ رہے۔


پبلک نیوز کے پروگرام "مقابل پبلک کے ساتھ" کی میزبان صحافی ماریہ جدون نے بتایا کہ: میں نے بطور طالب علم طارق محمود ملک سے بہت کچھ سیکھا ہے ناصرف انہوں نے نمل یونیورسٹی میں مجھے پڑھایا بلکہ میڈیا فیلڈ میں بھی کافی رہنمائی کی۔ اور جب مجھے آج صبح سویر ان کی وفات کا علم ہوا تو مجھے ایسا لگا جیسے میرے والد فوت ہوگئے ہیں کیونکہ میرے والد کی وفات کے بعد سر طارق محمود ہی تھے جنہوں نے ہمیشہ میری رہنمائی کی اور آج جو کچھ بھی میں ہوں یہ انہی کی مرہون منت ہے جسے میں کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اور ناصرف میں بلکہ ان کی مدد سے آج کئی لوگ میڈیا فیلڈ میں کام کررہے جن کی کامیابی کا سہرا طارق محمود کو جاتا ہے۔


اینکر ماریہ جدون نے مزید بتایا کہ: طارق محمود صاحب اس قدر نفیس اور طالب علموں کا خیال و رہنمائی کرنے والے پروفیسر تھے کہ جب میں نمل میں پڑھ رہی تھی تو میں نے ایک دکھی اسٹیٹس لگا دیا تھا جس پر فوراً مجھے استاد محترم کا فون آیا اور پوچھا کہ بیٹا! آپ پریشان ہو؟ کوئی بات ہے تو بتاؤ میں ان کی اس بات پر اتنا حیران ہوئی کہ واقعی طارق محمود ملک صاحب ایک بہترین استاد ہیں جو ہر وقت اپنے شاگردوں کو چھوٹی چھوٹی چیزیں سمجھاتے تھے کہ ٹوئیٹس اور پوسٹس کیسے کرنی ہے حتٰی کہ وہ ہمیں کہتے تھے سوشل میڈیا پر متحرک تمام صحافیوں کو فالو کرو اور ان کی سبھی پوسٹس پڑھا کرو۔ 


ماریہ جدون کے مطابق طارق محمود وہ عظیم استاد تھے جنہوں نے ہمیشہ اپنے طالب علموں کی کمی کوتاہیوں پر پردہ ڈالا نہ کہ کسی بچے کی غلطی پر ڈھنڈھورا پیٹنا شروع کردیا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ امتحانات کے دوران کوئی طالبعلم نقل کر رہا تھا تو طارق صاحب ان کے پاس گئے اور صرف ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ آنکھوں سے اشارہ کیا کہ ایسا مت کرو جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں دوسروں کی عزت نفس کا کتنا خیال تھا کے وہ جس طالب علم کی نقل پکڑتے تھے اس کے ساتھ والے کو بھی معلوم نہیں ہونے دیتے تھے کہ استاد نے فلاں سے نقل پکڑی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ دوبارہ کوئی ایسا بہترین استاد کم از کم میری زندگی میں آئے گا جو واقعی باپ جیسا ہو۔ بس دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے۔


سینئر نوجوان صحافی ارشد وحید چودھری کے کورونا کے باعث انتقال کے بعد اسی کورونا کے سبب طارق محمود ملک کی موت صحافی برادری کیلئے ایک دل دہلا دینے والی خبر تھی۔ جس کا اظہار صحافی برادری نے سوشل میڈیا پر کیا۔


صحافی و کالم نگار محسن رضا خان لکھتے ہیں:

میرا دوست طارق محمود ملک جہد مسلسل کے دوران ہی ہمیں چھوڑ کر چلا گیا  وہ اللہ تعالی کے حضور آج پیش ہوگیا  اسے مشورے دینے اور کام کو بہتر کرنے کی ہمیشہ سے لگن رہتی تھی تلہ گنگ میں نقشہ نویسی کرتے کرتے اسلام آباد میں صحافت کے میدان میں پہنچ گیا نمل سے صحافت کی تعلیم لی اور نمل کا ہی ہوگیا۔

محسن خان کے مطابق طارق محمود نے بہت مشکل حالات میں ایم فل کیا اس دوران چوری چھپے پڑھاتا رہا اور روزنامہ جنگ میں رپورٹر بھی تھا۔ وہاں سے میرے کہنے پر وہ الیکٹرانک میڈیا میں آگیا۔ وہ اے آر وائی میں ایک رپورٹر کی حیثیت سے آیا اور اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔


 محسن خان مزید کہتے ہیں کہ 2008 کے انتخابات میں اینکر کے طور پر پروگرام "میری آواز سنو" کیا۔ انکی خاص بات یہ تھی کہ وہ خود اچھوتے آئیڈیاز لاتا اور ان پر کام بھی کرتا  لیکن اسے مہم جوئی کا شوق بھی رہتا وہ  ایک مخلص دوست اور بھائی تھا دوستوں کا خیال رکھتا تھا۔ ان دنوں ہم نیوز میں سینئر رپورٹر کے طور پر کام کررہا تھا جو نیوز آرگنازیشن اپنے ورکروں کو میدان جنگ میں بھیجتی ہیں وہ تنخواہ تو پوری نہیں دیتے لیکن  ان کا خیال ہے کہ ورکر جان پوری لگائے خواہ اس میں اس کی جان ہی کیوں نہ لی جائے۔



صحافی سبوخ سید نے اپنے غم کا اظہار کچھ یوں کیا۔


‏ہمارے عزیز دوست اور صحافی طارق محمود ملک صاحب کورونا سے لڑتے لڑتے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ 2004 میں جیو نیوز اسلام آباد میں بطور رپورٹر آیا تو طارق بھائی جنگ میں رپورٹنگ کرتے تھے۔ ہم رک جاتے ہیں لیکن خبریں نہیں رُکتیں۔ ہم سب ایک دوسرے کے لیے فقط ایک خبر سے زیادہ کیا ہیں؟




صحافی و کالم نگار مطیع اللہ جان مرحوم ساتھ بیتے لمحے یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

‏انتہائی افسوسناک خبر، ہمارے پیارے ساتھی طارق محمود ملک کی وفات نے ہمیں ایک ہمدرد اور دیانتدار صحافی سے محروم کر دیا، وقت نیوز میں اکٹھے گذارا ہوا وقت یاد آ رہا ہے، نرم گفتار اور انتہائی پروفیشنل طارق محمود ہمیشہ یاد رہیں گے، اللہ تعالی مغفرت فرمائے اور اہل خانہ کو صبر دے آمین!


معروف صحافی حامد میر نے نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‏یہ سال جاتے جاتے بہت سے پیارے دوستوں اور بزرگوں کو ساتھ لیتا جا رہا ہے اللّٰہ تعالیٰ سب مرحومین کی مغفرت فرمائے ہم سب کو اس دنیا سےچلے جانا ہے اللّٰہ ہمیں صرف مرنے والوں کی نہیں زندہ لوگوں سے بھی محبت اور انکی عزت کرنا سکھائے آمین


ماہر تعلیم اور سیاسی تجزیہ کار پروفیسر طاہر نعیم ملک نے اپنے سوشل میڈیا سائٹ پر طارق محمود ملک کے ساتھ یادگار تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا: طارق محمود ملک کو اب مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ دل کو آتا ہے اور ان کے ساتھ بیتی محفلیں یاد آتی ہیں۔

مصنف برطانوی ادارے دی انڈیپنڈنٹ (اردو) کیساتھ بطور صحافی منسلک ہیں۔ اور مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں۔