Get Alerts

پاکستانی سیاست اور کبوتر بازی

پاکستانی سیاست اور کبوتر بازی

سیاست (Politics) "ساس" سے ماخوذ ہے جو يونانی زبان کا لفظ ہے، اس کے معانی شہر و شہرنشین کے ہیں۔
اسلامی نقطہ نگاہ سے سیاست وہ فعل ہے جس کے عمل سے لوگوں کی اصلاح ہوتی ہے اور معاشرہ میں فساد نہ برپا ہو۔
اہل مغرب کی زبان میں لوگوں پر حکومت کرنے کے فن کو سیاست کہتے ہیں۔ امور مملکت کے نظم ونسق کا انتظام سنبھالنے والوں کو سیاستدان کہتے ہیں۔
قرآن کریم فرقان مجید میں لفظ سیاست کا ذکر تو نہیں ہے، لیکن چند آیات اس کی تشریح کو واضح کرتی ہیں۔ جن کی بنیاد پر یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سیاست کے واضح اور نمایاں اصول کون سے ہیں۔
ان اصولوں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر، مظلوموں کی مدد و حمایت، عدل و انصاف اور ظلم و ظالم سے نفرت و حقارت قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اولیاء کرام  کو سیاست کا والی و وارث مقرر کیا گیا ہے، نیز انداز سیاست کی رہنمائی بھی قرآن کریم و فرقان مجید میں بیان کی گئی ہے۔


”ان کے پیغمبر نے کہا کہ اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو حاکم مقرر کیا ہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ یہ کس طرح حکومت کریں گے۔ ان کے پاس تو مال کی فراوانی نہیں ہے۔ ان سے زیادہ تو ہم ہی حقدار حکومت ہیں۔ نبی نے جواب دیا کہ انہیں اللہ نے تمہارے لیے منتخب کیا ہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنا ملک دے دیتا ہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہے اور صاحب علم بھی “
(سورہٴ بقرہ، آیت 247 )


اوپر بیان کی گئی آیت کے ترجمہ سے ایک بات واضح طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ رب ذوالجلال کے نزدیک سیاستدان کے لئے مال کی فراوانی لازم نہیں، بلکہ علم و شجاعت اہم ہے۔ سیاستدان غنی نہیں عالم و شجاع پسند کئے گئے ہیں۔
سیاست کے لغوی معنی حکومت چلانا اور امر و نہی کے ذریعہ معاشرہ کی اصلاح کے ہیں۔


اصطلاحی زبان میں سیاست کے معنی فن حکومت، انفرادی، قجتماعی و معاشرتی اصلاح اور معاشرہ میں فساد روکنے کے ہیں۔
قرآن کریم و فرقان مجید میں سیاست کے معنی حاکم کا لوگوں کے درمیان حق کا فیصلہ کرنا، معاشرہ میں ظلم و ستم کا خاتمہ اور رشوت کا خاتمہ ہیں۔ احادیث میں سیاست کے دو جز ہیں جن میں عدل و انصاف اور تعلیم و تربیت ہیں۔
علمأ کرام کی نظر میں رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت و روش اختیار کرنا ،استعمار سے جنگ، معاشرہ میں فساد کو روکنا، اور نصیحت کرنا سیاست ہے۔


مغربی فلسفیوں کی نظر میں سیاست فن حکومت،
اجتماعی زندگی کا سلیقہ اور بہترین اخلاقی اقدار کی ترویج ہیں۔ جو درج زیل لوازمات اختیار کر لیتا ہے وہ سیاست کے رموز سے واقف ہے۔


چونکہ انسان ذاتی حیثیت میں مندرجہ بالا امور سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا، لہٰذا کسی ایسے قانون کی ضرورت ہوتی ہے، جو انسانوں کی تربیت کی شرائط واضح کر سکے اور انھیں بہترین زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھائے ، مشرق میں اس کو دین کہتے ہیں۔ جبکہ مغربی ممالک میں اسی قانون کو دستور کا نام دیا گیا ہے۔ جو تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کا اجتماعی معاہدہ ہوتا ہے۔ مشرق میں سیاست میں دین کی آمیزش ضرورت سے زیادہ کر دی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں۔ عمومی طور پر یہ رویہ سیکھا گیا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ لوگ صرف اپنی ذات کے متعلق فکرمند رہتے ہیں۔ اجتماعی حیثیت میں وہ معاشرہ کا کتنا نقصان کر رہے ہیں، اسکی انکو کوئی پرواہ نہیں۔


ہمارے ملک میں کبھی سیاسی رواج آیا ہی نہیں الحمداللہ نا آنے کی توقع ہے۔ جو جمہوری افراد برسراقتدار ہوئے وہ یا تو مقتدر حلقوں کے آشیرباد سے آئے یا آکر مقتدر حلقوں کے اصولوں پر چلتے ہوئے جمہوری آمر بن گئے۔ وہ بھٹو ہوں، شریف ہوں، چوہدری ہوں یا آج کے عمران خان۔ بنیادی مقاصد سبھی کہ ایک تھے، پارلیمان کو بے توقیر کرنا، آپریشنز (سندھ اور بلوچستان کے آپریشن 1971ء سے  2018ء تک) قانون سازی میں سست روی (عوامی فلاح و بہبودکے لئے کوئی قانون سازی نہیں جن میں بیوروکریسی، تھانہ، پٹواری، عدلیہ شامل ہیں)، سیاسی قائدین جو حزب اختلاف سے ہوں پر مقدمات اور گرفتاریاں (چوہدری ظہور الٰہی پر بھینس چوری کا مقدمہ، شیخ رشید پر آوارہ کلاشنکوف کا مقدمہ، رانا ثناء اللہ پر منشیات کا مقدمہ نیز بغاوت و غداری کے مقدمات علیحدہ ہیں)، ذرائع ابلاغ پر پابندیاں اور صحافیوں کی گرفتاریاں ان سبھی کا طرہ امتیاز رہا۔


ہماری ملک میں سیاست تو ہے نہیں کبوتر بازی ہے یہ کبوتر کبھی اس منڈیر پر ہیں تو کبھی اس منڈیر پر جہاں دانہ نظر میں آیا کبوتر اس طرف چل نکلے۔ کبوتر مختلف سیاسی جماعتوں کا سہارا لیکر اقتدار میں آتے ہیں اور ہر بار ملکی تعمیر  و ترقی کا وعدہ کرتے ہیں۔ کبھی یہی کبوتر مسلم لیگ ق، کبھی یہی کبوتر پیپلز پارٹی، کبھی یہی کبوتر مسلم لیگ ن، اور کبھی یہی کبوتر تحریک انصاف کی منڈیر پر ہوتے ہیں، ان کبوتروں کا تعلق کسی بھی قبیلہ، نسل، یا برادری سے ہو سکتا ہے۔ ہمارے ملک کی مشہور ترین موجودہ کبوتروں کی نسلوں میں ترین، مخدوم، خان، چوہدری، چٹھہ، چیمہ، وڑائچ، میاں، خواجہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کبوتروں کے تمام تر کاروبار البتہ عوامی مسائل سے جڑے ہوئے ہیں، جن میں تعلیم، چینی، آٹا، گوشت، مواصلات (ٹرانسپورٹ)، ٹیکسٹائل (کپڑا)، پانی،  اور ایندھن (تیل و گیس) شامل ہیں۔


کبوتروں اور انکے نام نہاد مالکان یعنی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی سیاست پر تبصرہ ممکن نہیں کیونکہ اقتدار کی سیاست پر تبصرہ نہیں کیا جاتا ماتم کیا جاتا ہے، جو 73 سال سے جاری ہے۔ سیاسی نقطۂ نظر کے حساب سے چند منتخب اشعار نیچے درج کئے ہیں امید ہے پڑھنے والے محظوظ ہوں گے۔


ہر نئے سیاسی انقلاب کے نام جس میں اندرونی و بیرونی ہاتھ ملوث ہوتے ہیں، اور کبوتروں کی رہنمائی فرماتے ہیں۔


وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے
عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
از اظہر عنایتی


ہر اس سیاسی منشور کے نام جو امید کی کرن کی مانند لوگوں کو دیا جاتا ہے، حقیقت میں وہ ایک سراب ہوتا ہے۔


ان سے امید نا رکھ ہیں یہ سیاست والے
یہ کسی سے محبت نہیں کرنے والے
از نادم ندیم


ہر اس صحافی کے نام جو جانبدار ہو جاتا ہے، جن کے نزدیک وقت کا حکمران ظالم اور حزب اختلاف مظلوم ہوتی ہے حالانکہ ظالم دونوں ہی ہیں بس حزب اختلاف پر قانون لاگو ہوتا ہے اور حکمران قانون سے بالاتر ہوتا ہے۔


مجھ سے کیا بات لکھانی ہے کہ اب میرے لئے
کبھی سونے کبھی چاندی کے قلم آتے ہیں
از بشیر بدر


ہر اس سیاسی شعبدہ باز کے نام جو انتہاپسندی اور فرقہ واریت کی سرپرستی کرتا ہے۔


دھواں جو کچھ گھروں سے اٹھ رہا ہے
نا پورے شہر پر چھائے تو کہنا
از جاوید اختر


ہر اس سیاسی پہلوان کے نام جو عوام کو صبر کی تلقین کرتا ہے، اور نظام میں کوئی اصلاحات نہیں کرتا، حالیہ دنوں میں اس کے لئے نئی اصطلاح ایجاد ہوئی ہے جسے گھبرانا نہیں کہتے ہیں۔


کرسی ہے تمھارا جنازہ تو نہیں
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
از نامعلوم


جمہوریت اور مقتدر حلقوں کے نام جن کا نام لینے سے غداری کے مقدمات درج ہوتے ہیں۔


نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
از راحت اندوری


سیٹو، سینٹو، روس افغان جنگ، امریکہ افغان جنگ اور امت مسلمہ کی ان تمام جنگوں کے نام جن کی بدولت آج پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن ہے۔


دیکھو گے تو ہر موڑ پر مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
از ملک زادہ منظور احمد