Get Alerts

پاکستان میں ساڑھے تین ماہ میں 173 دہشتگرد حملے، رپورٹ سامنے آگئی

پاکستان میں ساڑھے تین ماہ میں 173 دہشتگرد حملے، رپورٹ سامنے آگئی
حکومت اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان مہینوں سے جاری جنگ بندی کا معاہدہ گزشتہ ماہ تب ختم ہو گیا جب کالعدم تنظیم نے 16 نومبر کو خیبر پختونخواہ کے شہر لکی مروت میں پولیس پر تین حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ مجموعی طور پر ساڑھے تین ماہ میں 173 دہشتگرد حملے رپورٹ ہوئے ہیں۔

سیز فائر کے ختم ہونے کے بعد سے ملک میں کالعدم تحریک طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیاں جاری ہیں تاہم ان میں سے صرف چند ایک کی ذمہ داری طالبان کی جانب سے قبول کی گئی ہے۔

ٹی ٹی پی کے زیادہ تر حملوں میں پولیس اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق نومبر کے دوران ٹی ٹی پی نے سولہ حملے کئے جبکہ اسی ماہ  لکی مروت اور ضلع باجوڑ میں ہونےوالے حملوں میں آٹھ سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ ٹی ٹی پی کا موقف ہے کہ یہ حملے جوابی کاروائی اور حفاظتی اقدامات کے طور پر کئے گئے تھے ۔ مجموعی طور پر ستمبر سے نومبر  کے اختتام تک ایک سو ساٹھ سے زیادہ حملوں میں پولیس کے ایک سو پانچ اہلکاربھی ہلاک ہوئے۔

جنگ بندی کے اعلان کے بعد سے اب تک پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں پر 13 کے قریب حملے رپورٹ ہوئے ہیں جن میں گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں واقع کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کےکمپاؤنڈ پر اور رات گئے جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں سٹی تھانہ وانا اور باغیچہ چیک پوسٹ پر دہشتگردوں کا حملہ بھی شامل ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق 30 نومبر کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے بلیلی میں پولیس اہلکاروں کے ٹرک کے قریب دھماکا ہوا تھا جس میں چار  افراد ہلاک جبکہ 23 زخمی ہوئے تھے۔

1 دسمبر کو  جنوبی وزیرستان میں آرمی پبلک اسکول کے قریب فورسز پر حملہ ہوا تھا جس میں ایک شہری جاں بحق جب کہ ایف سی اہلکار زخمی ہوگیا۔

1 دسمبر کو   خیبر پختونخواہ کے شہر چار سدہ میں پولیس افسر پر حملہ ہوا تھا۔ تھانہ تنگی کی حدود میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پولیس اہلکار زرمست خان شہید ہو گئے۔

2 دسمبر کو  مردان میں نامعلوف افراد کے حملے میں ایک شخص جاں بحق ہوا۔

3 دسمبر کو خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں جی ٹی روڈ پر اکھوڑہ خٹک کے قریب پولیس موبائل پر شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا جس میں 3 اہلکار شہید ہوئے۔

6 دسمبر  کو خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں پولیس کے مطابق نامعلوم مسلح افراد  نے پیر کی شب ایک گھر میں گھس کر فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے اہلکار کو بیٹے سمیت قتل کر دیا۔

7 دسمبر  کو بنو ں میں شرپسندوں  نے کنگر پل پولیس چوکی پر حملہ کیا جس  چوکی میں موجود ہیڈ کانسٹیبل سردارعلی خان شہید ہو گئے جبکہ جوابی فائرنگ سے حملہ آور فرار ہوگئے۔

16 دسمبر  کو صوابی میں پولیس سٹیشن پر حملہ ہوا۔

18 دسمبر  کو صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت میں عسکریت پسندوں کی جانب سے برگئی پولیس سٹیشن پر حملہ کیا گیا جس میں چار پولیس اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوگئے ہیں۔

19 دسمبر کو سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ میں دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا جس میں اب تک ایک پولیس اہلکارشہید اور تین سکیورٹی اہلکاروں کے زخمی ہونےکی اطلاعات ہیں۔

20 دسمبر کو جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں سٹی تھانہ وانا اور باغیچہ چیک پوسٹ پر دہشتگردوں نے حملہ کیا۔

پولیس ذرائع کا بتاناہےکہ 50 سے زائد دہشتگردوں نے چیک پوسٹ پر حملہ کیا جس دوران فورسز سے فائرنگ کےتبادلے میں ایک دہشتگرد مارا گیا جب کہ فائرنگ سے ایک سکیورٹی اہلکار زخمی ہوا۔ گزشتہ 3 دنوں میں پختونخوا میں یہ چوتھا بڑا حملہ تھا۔

ملک کی سکیورٹی صورتحال دن بدن بگڑتی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) 2007 میں ابھری جس کے بعد  پاکستان میں تشدد کی ایک خوفناک لہر  اُٹھی جس کا خاتمہ 2014 میں فوجی کریک ڈاؤن کے ساتھ ہوا۔ گزشتہ سال افغان طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد سے حملوں میں دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے تاہم ان حملوں میں زیادہ تر سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے حکومت کے ساتھ طویل جنگ بندی کا معاہدہ گزشتہ ماہ ختم کر دیا جس کے بعد  ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔