ان دنوں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں موسم کی خنکی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ مغربی بائی پاس سے متصل کشمیر آباد میں کھیتوں سے گزرتے ہوئے تھوڑی سردی لگی، اس دوران جب مین بائی پاس اختر آباد پہنچے تو ہر طرف دھول اڑ رہی تھی اور مٹی کے طوفان کا سماں تھا۔ میں نے موٹر سائیکل کی رفتار بھی کم کر دی۔ روڈ کے آس پاس درجنوں کرش پلانٹس سے نکلنے والی دھول کی وجہ سے فضا میں گردوغبار تھی اور یہاں حدنگاہ بھی کم تھی۔ میں آہستہ آہستہ موٹر سائیکل چلاتے چلاتے مقامی کرش پلانٹ تک پہنچا۔
چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی وادی کوئٹہ میں قدرتی پہاڑوں کو بھاری مشینری کی مدد سے کاٹ کر تعمیراتی کام میں استعمال ہونے والا سٹون کرش اور بجری بنائی جاتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور جدت کے باوجود شہر میں خشک کرشنگ کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ملحقہ علاقوں میں گردوغباربہت زیادہ ہو گیا ہے۔
22 سالہ شکیل احمد کا تعلق رحیم یارخان سے ہے اور نان و نفقہ کی تلاش اسے یہاں کرش پلانٹ تک لے آئی۔ شکیل احمد گزشتہ چار سال سے کریش پلانٹ میں محنت مزدوری کرکے روزی روٹی کما رہے ہیں۔ شکیل نے بتایا کہ وہ روزانہ 14 گھنٹے مسلسل کریش پلانٹ پر کام کرتے ہیں جس کے عوض انہیں ماہانہ صرف 14,000 روپے تنخواہ ملتی ہے جو کہ روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
اصغر علی مغربی بائی پاس پر کوئٹہ کے علاقے اختر آباد میں پیٹرول کا کاروبار کرتے ہیں۔ اخترعلی کے مطابق کرش پلانٹس کے گردوغبار کی وجہ سے ان کے لیے سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ رات کو جب وہ کام ختم کرکے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں تو ان کا لباس اور جوتے مٹی سے خراب ہو جاتے ہیں۔ اصغرعلی کے مطابق کریش پلانٹس پر دن بھر اور کبھی کبھی رات کے وقت بھی کام جاری رہتا ہے جس سے شور وغل ہوتا ہے اور اس سے قریبی آبادی کے لوگوں کی نیند متاثر ہو رہی ہے اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔ یہی نہیں، کریش پلانٹس کے قریب آبادی کے لوگوں کو ایک دوسرے کی بات سننے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انسانی حقوق اور لیبر قوانین کے مطابق مزدوروں کے لیے روزانہ 8 گھنٹے کام جبکہ مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت 25000 روپے مقرر کی گئی ہے۔ باعث تشویش امر یہ ہے کہ ملک کے دیگر شہروں کی طرح بلوچستان میں بھی مزدوروں کے بنیادی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔
مقامی کریش پلانٹ کے منشی عبدالرحیم نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ کریش پلانٹ میں کام کرنے والے مزدوروں کوماہانہ 30,000 روپے تنخواہ ادا کرکے تمام سہولیات بھی فراہم کر رہے ہیں۔
شکیل احمد بتاتے ہیں کہ کریش پلانٹ مالک انہیں صرف دو وقت کی روٹی اور رہائش فراہم کرتے ہیں جبکہ بیماری کی صورت میں انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ مقررہ وقت سے زیادہ کام کرنے والے مزدور اوورٹائم الاؤنس سے بھی محروم ہیں۔ اس کے برعکس ہفتے میں صرف ایک دن جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے۔ انتہائی سخت اور دشوار گزار کام ہونے کے باوجود ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جاتا اور بیروزگاری کی وجہ سے گھرسے دور وہ یہ کام کرنے پر مجبورہیں۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر پلمونولوجسٹ فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال کوئٹہ ڈاکٹر مقبول بلوچ بتاتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا نے ترقی کی منازل طے کر کے کاروبار کو مزید آسان بنا دیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں 'ویٹ کرشنگ' کی جاتی ہے تاکہ گردوغبار کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ بدقسمتی سے مگر ہمارے یہاں اب بھی یہ شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے اور'ڈرائی کرشنگ' کر کے فضائی آلودگی کوبڑھایا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کرش پلانٹس سے نکلنے والا گردوغبار اور دھند ماحول کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس سے قریبی آبادی کے مکین زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر مقبول بلوچ کے مطابق کرش پلانٹس میں سلیکا اور دیگر کیمیکل پائے جاتے ہیں جن سے پھیپھڑوں کی بیماری ”سلیکوسس“ ہو سکتی ہے، اس سے (Occupational Asthma) لاحق ہوسکتا ہے۔ جن کے پھیپھڑوں میں سلیکا موجود ہو ان میں ٹی بی بڑھنے کے خدشات ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کوئٹہ میں ہر دوسرا شہری کھانسی کی بیماری میں مبتلا ہے اور ہم اس پر توجہ نہیں دیتے مگر یہ کھانسی کریش پلانٹس کے گردوغبار کی وجہ سے پھیل رہی ہے۔
سینے کی ایک بیماری ”سی او پی ڈی“ جو دائمی سانس کی تکلیف ہے اور یہ سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہوتی ہے تاہم کرش پلانٹ کے گردوغبار کی وجہ سے نان سموکنگ انسان کو ”سی او پی ڈی“ لاحق ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال میں روزانہ 700 مریضوں کی او پی ڈی ہوتی ہے ان میں 300 کے لگ بھگ لوگ سانس اور دمہ کے امراض میں مبتلا ہیں۔ کرش پلانٹ کے کیمیکل اوزون کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں جس سے ماحول متاثر ہو رہا ہے۔ ماحولیات پر کام کرنے والے ادارے اور غیرسرکاری تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت ملنے والی دستاویزات کے مطابق رواں سال فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال کوئٹہ میں دو ماہ کے دوران سانس کی دشواری میں مبتلا 16 مریض جان کی بازی ہار گئے۔ یکم مئی تا 31 مئی 2022 تک فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال کوئٹہ میں سی او پی ڈی دائمی دمہ کی بیماری سے متاثرہ 25 مریضوں کو داخل کیا گیا جن میں سے 5 مریض جان کی بازی ہار گئے۔ اس دوران استھما کے 11 مریض بھی ہسپتال آئے جن میں سے 3 مریض لقمہ اجل بن گئے۔ دستاویزات کے مطابق یکم اگست تا 30 اگست 2022 دائمی دمہ کی بیماری کے 25 مریضوں میں سے 5 مریض زندگی کی بازی ہار گئے اور استھما کے 11 مریضوں میں سے 3 مریض جاں بحق ہو گئے۔
ڈائریکٹر جنرل محکمہ تحفظ ماحولیات بلوچستان محمد ابراہیم بلوچ نے کہا کہ محکمہ ماحولیات کوئٹہ شہر میں ماحول کی بہتری کے لیے کوشاں ہے اور ہم اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے اقدامات کر رہے ہیں تاہم محکمے میں مزید اصلاحات کی گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ شہر میں 36 کے لگ بھگ کریش پلانٹس آبادیوں کے قریب موجود تھے۔ ان کے این او سی منسوخ کرکے ان کو بند کرکے ان کے خلاف انوائرنمنٹل ٹربیونل میں کیس بھی دائر کر دیا جہاں سے ہمیں کریش پلانٹس کو شہرسے باہر منتقل کرنے کے بعد کریش پلانٹس مالکان نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور اب عدالت عالیہ نے بھی ہمیں حکم دیا ہے کہ انہیں آبادی سے دور منتقل کریں تاکہ اس کے اثرات سے شہری محفوظ ہو سکیں۔ احکامات کے باوجود ایک کریش پلانٹ چل رہا تھا جس کے خلاف کارروائی کر کے اس کی لیزمنسوخ کردی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان ہائیکورٹ نے کرش پلانٹس کو آبادی سے دور منتقل کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں جس پر اس کاروبار سے منسلک افراد نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا ہے۔
مقامی کرش پلانٹ کے مالک حاجی عبدالباسط لہڑی نے بتایا کہ ان کے کرش پلانٹ میں 50 کے لگ بھگ مزدور کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ جس میں ٹرک ڈرائیور اور لوڈنگ کا عملہ بھی شامل ہے، جس سے ان کی روزی روٹی کا ذریعہ منسلک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کرش پلانٹس سے نکلنے والی بجری، کرش اسٹون و دیگرمیٹیریل کوئٹہ شہر میں ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ لوگوں کے ذاتی گھروں کی تعمیر میں استعمال ہوتا ہے۔ کرش پلانٹس کی بندش سے نہ صرف مزدوروں کا روزگار متاثر ہوگا بلکہ اس سے تعمیراتی میٹیریل کرش اسٹون اور بجری کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے جو کرش میٹیریل 1500 روپے میں دستیاب تھا اب اس کی قیمت 35000 تک پہنچ چکی ہے جس سے حکومت کے اپنے ترقیاتی منصوبوں میں تعمیراتی کام سست روی کا شکار ہوں گے۔
ڈی جی ماحولیات ابراہیم بلوچ نے بتایا کہ کوئٹہ شہر کی آبادی میں اضافے کے ساتھ مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اور ہمیں سروسز کی فراہمی میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شہر میں ماحولیات کی بہتری کے لیے ہمیں گاڑیوں اورافرادی قوت کی ضرورت ہے۔ محکمے کے پاس اب صرف 10 انسپکٹرز اور اسسٹنٹ انسپکٹرز ہیں جبکہ 30 آسامیاں خالی ہیں جو کوئٹہ شہر کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اس ضمن میں نئی آسامیاں مشتہر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بآسانی اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ محکمہ ماحولیات کے ملازمین کی استعداد کارمیں اضافہ کرنے کے لیے دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ تربیت کی بھی ضرورت ہے تاکہ ان کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کیا جا سکے مگر فنڈز کی کمی کے باعث ہمیں مشکلات درپیش ہیں۔ آپریشنز کو بہتر طریقے سے چلانے کے لیے ہمیں گاڑیوں کی ضرورت ہے جس کے لیے پی ایس ڈی پی میں پروجیکٹ کی منظوری کروائی ہے۔ یہ مکمل ہو تو ہمارے ملازمین کی استعداد کارمیں اضافہ ہوگا اور سروسز کی ادائیگی میں درپیش مشکلات بھی کم ہوں گی۔
کریش پلانٹس کی منتقلی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ معاملہ حل کرنے کے لیے حکومت نے کمشنر کوئٹہ ڈویژن کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی ہے جس کے فیصلے کے بعد اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
اس ضمن میں عدلیہ کے واضح احکامات موجود ہیں جن میں این او سی کے بغیر چلنے والے تمام کرش پلانٹس کو بند کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں مگر محکمہ ماحولیات اور ضلعی انتظامیہ کے حکام کسی قسم کی کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ کریش پلانٹس کو آبادی سے دور منتقل کرنے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے سربراہ کمشنر کوئٹہ ڈویژن سہیل الرحمٰن بلوچ کا مؤقف جاننے کے لیے ان کے پرسنل سیکرٹری سے بار ہار رابطہ کیا گیا، دو مرتبہ ان کے دفتر بھی گیا اور انہیں واٹس ایپ پر پیغام بھی بھیجا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
یحییٰ ریکی کا تعلق بلوچستان کے ضلع چاغی سے ہے اور وہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بطور صحافی کام کر رہے ہیں۔ یحییٰ ریکی نوجوانوں اور خواتین کے مسائل، تعلیم وصحت، بیروزگاری، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ودیگر موضوعات پر اردو اور انگلش میں کالم اور فیچر لکھتے ہیں۔