ٹی وی پروگراموں میں مستقبل کا حال بتانے والے ملک میں انتشار پھیلا رہے ہیں

ٹی وی پروگراموں میں مستقبل کا حال بتانے والے ملک میں انتشار پھیلا رہے ہیں
کچھ لوگ قسمت اور مستقبل کا حال بتانے کو علم کہتے ہیں اور بہت سے لوگ اس پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ ان میں سیاستدان اور مشہور شخصیات بھی شامل ہیں۔ آج کل بڑے بڑے ٹی وی چینلز پر نام نہاد نجومیوں کو بلا کر پاکستانی سیاست کے بارے میں پروگرام نشر کئے جاتے ہیں اور پھر ان کی تشہیر بھی کی جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی سچائی کے خود ساختہ دعوے اور چرچے بھی کئے جاتے ہیں۔

سادہ لوح عوام ان کو دیکھ کر یقیناً اثر لیتے ہوں گے اور ان کی بنیاد پر جب بڑے بڑے نامی گرامی اینکرز پروگرامز میں ان کا پرچار کرتے ہیں اور پھر ان کو ماضی سے جوڑ کر ان نام نہاد نجومیوں کے دعوؤں کو سچا بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف رائے عامہ ہموار ہوتی ہے بلکہ لوگوں کی ذہن سازی بھی کی جا رہی ہوتی ہے۔ عام لوگ ان باتوں پر یقین کرتے ہوئے اپنے خیالات اور سوچوں کو بھی بدلتے ہیں اور اس سے متاثر ہو کر اس کے پرچار میں بھی لگ جاتے ہیں۔ پھر ایک رجحان کے ذریعے خود بھی اس قسمت کا حال جاننے کے علم کا حصہ بنتے ہیں اور ان نجومیوں کے ہتھے چڑھ کر نہ صرف اپنی دولت ضائع کرتے ہیں بلکہ مختلف شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کے بھی شکار ہو جاتے ہیں۔

ایک بات بہت ہی واضح ہے کہ اس کی اب تک کوئی بھی سائنسی طور پر قبولیت نہیں۔ سائنس بھی اسے تسلیم نہیں کرتی اور دنیا میں یا پاکستان میں اسے کوئی قانونی تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔ ان خدشات کو کسی عدالت میں ثبوت کا درجہ بھی حاصل نہیں ہے۔

پہلے وقتوں میں سیاسی بابے ہوا کرتے تھے اور طوطوں سے فالیں نکلوانے کے لئے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر جہالت کے سہارے اپنی دال روٹی چلا رہے ہوتے تھے۔ اب جدید نام نہاد علم نجوم کے ماہرین فائیو سٹار ہوٹلز میں قیام کرتے ہیں اور لوگوں کے نصیبوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔

اب تو یہ سائنسی علوم کی بھی ایسی تیسی کر رہے ہیں۔ ہماری سیاست میں سیاسی علوم اور اصول و اسلوب بھی ان کی مرہون منت لگ رہے ہیں۔ اپنی افواہوں اور پیش گوئیوں سے یہ کسی کو وزیر اعظم کی خوشخبری دے رہے ہوتے ہیں تو کسی کو جیل میں بند کروا رہے ہوتے ہیں۔ کسی کے جہاز کو گرا رہے ہوتے ہیں تو کسی کو گولی مروا رہے ہوتے ہیں۔ اتنی چالاکی سے تمام ممکنات کو گو مگو کے مصالحے کا تڑکہ لگا کر پیش کرتے ہیں کہ کل اگر غلط بھی ثابت ہوتے ہیں تو کسی نہ
کسی شک شبے کا جواز مہیا کر کے اپنے جھوٹوں پر پردہ ڈال سکیں۔

علم نجوم کے یہ ماہر اپنی پیش گوئیوں سے سیاسی انتشار پیدا کرکے غیر یقینی کی صورت حال کو جنم دے رہے ہوتے ہیں۔ کچھ اسی سوچ کے صحافی بھی ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور جیسے صحافیوں پر لفافہ صحافی کے الزامات لگتے رہتے ہیں، اسی طرح کیا پتہ ان کے بھی مقاصد کے پیچھے لفافوں کا ہی ہاتھ ہو کہ یہ اپنے اندازوں سے کسی کو نقصان تو کسی کو فائدہ دینے کی اجرت وصول کر رہے ہوں۔

کچھ اس کو مذہب کا درجہ دینے کی بات کرتے ہیں۔ وہ ان خیالات اور سوچوں کو اخلاقی پہلوؤں سے جوڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن میرے خیال میں تو اس کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس طرح کی سوچوں والے خود علم نفسیات کے ابواب کا موضوع ہیں اور ان کے اندر ایک خاص سوچ اور خیال غالب ہوتا ہے جو نفسیاتی مرض کا درجہ رکھتا ہے۔ مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں اس کی چیدہ چیدہ مثالیں تو تھیں مگر اس کی دور جدید میں اصل بنیاد بھی انڈیا سے شروع
ہوئی ہے اور اس طرح اس کو توہمات پرستی کی ایک جدید صورت کہا جاسکتا ہے۔

مذاہب نے تمام علوم کی حوصلہ افزائی کی ہے مگر علم نجوم اور ہاتھوں کی لکیروں کے ذریعے احوال کو جاننے اور جادو ٹونے وغیرہ کی طرز کے اعمال کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اگر اس طرح کے علوم انسان کے لئے فائدہ مند ہوتے تو ادیان الہی میں ان کی نفی نہ کی گئی ہوتی۔

اگر جھوٹی خبروں کو پھیلانا جرم ہے تو پھر خدشات کی بنیاد پر جھوٹی افواہوں اور خدشات کو پھیلانا کیا جرم نہیں؟ ان کی بنیاد پر افراتفری کو ہوا دینا، ملک کی سیاسی صورت حال کو خراب کرنا اور سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا جرم نہیں؟ ان افواہوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بھی بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے۔

ویسے بھی جو علم احوال کے بارے خدشات تو رکھتا ہو مگر ان کی تبدیلی کے بارے میں کوئی اس کے پاس اختیار یا حل نہ ہو تو ایسے علم سے تذبذب، انتشار اور مایوسیوں کی امید تو کی جا سکتی ہے مگر بہتری کی توقع ممکن نہیں۔

کسی بھی طرح کے خیالات اور سوچوں پر عمل پیرا لوگوں کے پاس اپنی تسلی اور پیروکاروں کے اطمینان کی خاطر دلائل تو موجود ہوتے ہیں مگر ان کی بنیاد پر سائنسی ہونے کی کوئی شہادت نہیں ملتی اور نہ ہی کوئی عقلی جواز سے رشتہ بنتا ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ معاشرے کو اس طرح کے بگاڑ پیدا کرنے والے خیالات سے دور ہی رکھا جائے اور عوام کو اس کے نقصانات سے بچانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

لہٰذا حکومت کو اس پر نوٹس لینا چاہئیے اور پیمرا کو بھی اس طرح کے پروگراموں پر پابندی لگانی چاہئیے۔ پاکستان میں اس طرح کے اندازوں کی قبولیت یا ان کے سدباب کا کوئی واضح قانون تو موجود نہیں مگر اس طرح کے خدشات اور افواہیں جو انتشار پھیلانے کا باعث بن رہی ہوں ان کے بارے میں قوانین ضرور موجود ہیں جن کے اطلاق سے ان مداریوں سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔