شفاف انتخابات؛ پاکستان فریڈم موومنٹ نے الیکشن کمیشن کو تجاویز دے دیں

الیکشن کمیشن آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں تجویز دی گئی ہے کہ بیلٹ پیپر پر انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں اور ان کے انتخابی نشانوں کے ساتھ ایک خانے کا اضافہ کیا جائے جس کا عنوان ہو؛ 'ان میں سے کوئی بھی نہیں'۔ اس طرح ووٹرز ٹرن آؤٹ بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی رائج ہے۔

شفاف انتخابات؛ پاکستان فریڈم موومنٹ نے الیکشن کمیشن کو تجاویز دے دیں

2024 کے انتخابات سے متعلق سیاسی جماعت ' پاکستان فریڈم موومنٹ' نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نام خط لکھا ہے جس میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کے لیے تجاویز دی گئی ہیں۔

پاکستان فریڈم موومنٹ رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے اور اس کا انتخابی نشان کھجور کا درخت ہے۔ معروف کاروباری شخصیت ہارون خواجہ پاکستان فریڈم موومنٹ کے چیئرمین ہیں اور چیف الیکشن کمشنر کے نام خط میں انہوں نے تحریر کیا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات ملکی تاریخ کا اہم سنگ میل ہیں جن کا شفاف ہونا انتہائی اہم ہے۔ عوام کو ان انتخابات کے ساتھ بہت سی توقعات ہیں جنہیں پورا کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو چند اہم اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں تجویز دی گئی ہے کہ بیلٹ پیپر پر انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں اور ان کے انتخابی نشانوں کے ساتھ ایک خانے کا اضافہ کیا جائے جس کا عنوان ہو؛ 'ان میں سے کوئی بھی نہیں'۔ اس طرح ووٹرز ٹرن آؤٹ بڑھایا جا سکتا ہے اور وہ ووٹر جو موجودہ لیڈرشپ میں سے کسی کو بھی ووٹ نہیں دینا چاہتے وہ اس آپشن کو منتخب کر سکتے ہیں۔ جس حلقے میں ووٹرز کی جانب سے سب سے زیادہ اس آپشن کا انتخاب کیا جائے وہاں نئے امیدواروں کے ساتھ دوبارہ انتخاب کروایا جائے۔ یہ طریقہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی رائج ہے۔

جانبداری کے تاثر کو ختم کرنے کے لیے ایک صوبے میں تعینات صوبائی سیکرٹریز، ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز کو دوسرے صوبے کے افسران سے تبدیل کر دیا جائے۔

الیکشن کمیشن بل بورڈز، بینرز، پوسٹرز، سٹیکرز اور جھنڈوں پر پابندی لگا دے۔ امیدواران سب سے زیادہ پیسے انہی چیزوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اس سے جہاں الیکشن کے اخراجات کم ہو جائیں گے وہیں کم مالی حیثیت رکھنے والے امیدوار کو بھی برابر کا موقع ملے گا۔ اس طرح کئی ایسے اہل لوگ بھی انتخابات میں حصہ لے سکیں گے جو مطلوبہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے آگے نہیں آ پاتے۔

ووٹنگ والے دن سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی جانب سے ووٹرز کو پولنگ سٹیشن تک لانے اور واپس گھر چھوڑنے کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ اس اقدام سے ناصرف الیکشن اخراجات کم ہوں گے بلکہ دولت مند امیدوار کی سبقت بھی ختم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ یہ اقدام مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے مابین لڑائی جھگڑے کے خدشے کو بھی کم کر دے گا۔

ٹیلی وژن، ریڈیو اور اخبارات میں انفرادی حیثیت میں امیدواروں کی تشہیر پر پابندی لگائی جائے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس یہ حق ہونا چاہئیے کہ مخصوص بجٹ کے اندر رہ کر اپنی اور اپنے امیدواروں کی تشہیر کریں۔ ان اخراجات کو الیکشن کمیشن مانیٹر کرے۔

میڈیا تمام سیاسی جماعتوں کو برابر کوریج دے۔ الیکشن کے دوران جلسوں کی کوریج پر پابندی ہونی چاہئیے۔ میڈیا پر انتخابات سے متعلق مباحثے منعقد کروائے جائیں جن میں تمام جماعتوں کو برابر کوریج ملے۔ ان مباحثوں کی مانیٹرنگ الیکشن کمیشن کرے۔ اگر کسی امیدوار کو میڈیا پر کوریج نہیں ملتی تو وہ اپنی شکایت الیکشن کمیشن میں جمع کروانے کا حق رکھتا ہو۔

الیکشن میں حصہ لینے سے قبل آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق امیدوار کی مکمل جانچ پرکھ ضروری ہے۔ آئین کے مذکورہ آرٹیکلز میں درج شرائط کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے اور ایک فہرست میں ان 24 شرائط کو درج کیا گیا ہے جن پر پورا اترنا ایک امیدوار کے لیے لازم ہے۔

ان 24 میں سے 17 شرائط سے متعلق حکومت کے مختلف محکمے معاونت کر سکتے ہیں۔ باقی کی 7 شرائط جنہیں نشان زد کیا گیا ہے اطلاق سے پہلے ان میں سے ابہام دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان تمام شرائط پر عمل درآمد کروانے کے لیے الیکشن کمیشن کو واضح فریم ورک ترتیب دینا چاہئیے اور اس کا اطلاق 2024 کے انتخابات پر ہونا چاہئیے۔ اس میں مزید وضاحت یا ترمیم کی ضرورت ہو تو اسے آنے والی پارلیمنٹ کے سپرد کر دینا چاہئیے۔

پاکستان فریڈم موومنٹ نے آرٹیکل 62 اور 63 میں درج تمام شرائط پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ایک فریم ورک تجویز کیا ہے۔ اگر اس پر عمل کیا جاتا ہے تو انتخابات کا عمل شفاف اور آزادانہ ہو سکتا ہے۔

خط میں اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ اگر ان تجاویز پر الیکشن کمیشن آف پاکستان عمل کرتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ آنے والے انتخابات شفاف اور آزادانہ ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں ناصرف الیکشن کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ عوام کو اپنے حقیقی نمائندے پارلیمنٹ بھیجنے کا موقع ملے گا۔ اگر ان تجاویز پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو پھر سے وہی نمائندے پارلیمنٹ کا حصہ بن جائیں گے جن سے عوام پہلے ہی مایوس ہو چکے ہیں۔