نیب کچھ لوگوں کو فائدہ دینے کے لئے آرڈیننس کا انتظار کر رہی تھی: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی

نیب کچھ لوگوں کو فائدہ دینے کے لئے آرڈیننس کا انتظار کر رہی تھی: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی
اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا آج کا اجلاس رانا تنویر حسین کی سربراہی میں ہوا جس میں بیناولنٹ فنڈ سکیورٹی کا معاملہ زیر غور آیا جس پر آڈٹ حکام نے مؤقف اپنایا کہ ادارہ بیناولنٹ فنڈ کی 22 ارب روپے کی سرمایہ کاری پر نیب کا کیس بنا جبکہ تین ارب روپے کی سرمایا کاری پرائیویٹ کمپنیوں میں کرائی گئی جس سے پرائیوٹ کمپنیوں میں سرمایہ کاری سے ایک ارب 20 کروڑ روپے ڈوب گئے۔

آڈٹ حکام نے فنڈز کی وضاحت کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس رپورٹ میں گرے ایریاز موجود ہیں اور نیب کو رپورٹ دی گئی ہے۔

نیب نے کیس کی نوعیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کیس آخری مراحل ہے جس پر چئیرمین کمیٹی نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ جو نام اس کیس میں سامنے آ رہے ہیں، ان سے اندازہ ہو رہا ہے۔ نیب حکام کیوں خاموش ہیں؟ کیونکہ جو بھی سوال کیا جاتا ہے نیب اس کا جواب نہیں دیتی۔

چیئرمین کمیٹی نے نیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے نیب حکام آرڈیننس پاس ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔ کمیٹی نے نیب سے پوچھا اس کیس کو کون دیکھ رہا ہے جس پر نیب حکام نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کو ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی دیکھ رہے ہیں جس پر کمیٹی نے اس معاملے پر ڈی جی نیب عرفان نعیم منگی کو طلب کر لیا۔



چئیرمین کمیٹی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا نیب کی کارکردگی ایسی ہے کہ اس ادارے کو ختم ہو جانا چاہیے کیونکہ یہ صلاحیت سے عاری ہے یہ کیس 2012-13 سے چل رہا ہے مگر نیب بیوقوفانہ سرمایہ کاری پر کیس نہیں بنا سکتا۔

نیب کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے مشاہد حسین سید نے کہا کہ نیب صرف سیاسی کیسز میں تیزی دکھاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کے کیس میں اخبار کی خبر پر نیب نے گرفتاریاں کر لیں۔ ابھی ریفرنس نہیں بنا اور وہ گرفتار ہیں اور یہ یہ بینادی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ نیب کے دوہرے معیار ہیں۔ 2001 کے کیس پر ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

سردار آیاز صادق نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر سکیورٹی کی ایک ہی کمپنی میں کیوں سرمایہ کاری کی گئی اور گذشتہ آٹھ سال سے نیب اس اربوں روپے کے کیس میں کیا کر رہی ہے۔

قومی اسبملی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے جمعرات کے روز قومی احتساب بیورو کی چھترول کرتے ہوئے واضح کیا کہ نیب نے بہت سے مواقع پر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی اور ان کے رجحانات میں تضاد بہت ہے۔ کمیٹی نے آج کے اجلاس میں وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ قومی احتساب بیورو صرف سیاسی کیسز میں تیزی دکھاتا ہے جبکہ 2001 کے کرپشن کیسز میں ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا، اور دوسری طرف شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال اخبار کی ایک خبر پر گرفتار کیے گئے اور ابھی تک ریفرنسز نہیں بنے۔ اگر کارگردگی ایسی رہی تو اس ادارے کو ختم ہونا چاہیے۔