الیکشن کمیشن ایکٹ کی دفعہ 157 کے تحت صدر پاکستان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں لیکن اس کی دو شرائط ہیں؛ پہلی یہ کہ وہ الیکشن کمیشن کے ساتھ مشاورت کریں اور دوسری شرط یہ ہے کہ صدر مملکت وزیراعظم کے مشورے کے پابند ہیں۔ چونکہ یہ صدر کا صوابدیدی اختیار نہیں ہے اس لیے یہاں وہ وزیراعظم کے مشورے کے پابند ہیں۔ یہ دونوں شرائط پوری نہیں ہوئیں۔ ان کا یہ اقدام آئین سے تجاوز ہے، اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔ یہ کہنا ہے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر اویس بابر نے کہا کہ جب تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کوئی سمری بنا کر صدر مملکت کو نہیں بھیجتا تب تک صدر کا آرڈر بالکل غیر قانونی ہے۔ میری آئینی اور قانونی رائے یہی ہے کہ صدر کے پاس اختیار نہیں تھا کہ وہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں، اب یہ معاملہ عدالتوں میں جائے گا۔ جب تک الیکشن کمیشن کوئی تاریخ نہیں دیتا، صدر خود سے الیکشن کی کوئی تاریخ نہیں دے سکتے۔ قانونی پوزیشن یہ ہے کہ الیکشن کی تاریخ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی دے گا۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ یہ بات تو طے ہے کہ الیکشن 90 دن کے اندر ہونے ہیں لیکن اس کے ساتھ آرٹیکل 105 گورنر کو پابند کرتا ہے کہ وہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں گے اور وہ 90 دنوں کے اندر ہوں گے۔ مشاورت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو الیکشن کمیشن کہے گا وہی مشاورت ہوگی۔ مشاورت کے لیے صدر نے دو خطوط لکھے اور الیکشن کمیشن کو بلایا۔ اس کا مطلب ہے مشاورت ہو گئی ہے۔ وقت کم رہ جانے کے باعث انہوں نے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق انتخابات کی تاریخ دی ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ اگر آئین اور قانون کی بات ہے تو سب کو پتہ ہے کہ آئین قانون سے سپریم ہے۔ آرٹیکل 48 ایک اور 48 دو کے تحت جو اعلاناتی اختیار ہیں صدر کے ان میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنا شامل نہیں۔ صدر نے آج کوئی اچھا کام نہیں کیا۔ صدر کے مواخذے کے لئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دونوں ایوانوں میں پی ڈی ایم کو یہ اکثریت اس وقت حاصل نہیں ہے اور عارف علوی اسی چیز کا فائدہ اٹھا کر ایسے اقدامات کر رہے ہیں۔ ان سے زیادہ متعصب صدر پاکستان کی حالیہ تاریخ میں نہیں آیا۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔