خاموشی قبرستانوں میں ہی اچھی لگتی ہے۔ زندہ انسانوں کو کچھ نہ کچھ بولتے رہنا چاہیے۔ اتنی خاموشی اچھی نہیں لگتی۔ زندہ انسانوں کو زیبا نہیں خاموشی، ناراضگی، بعض، حسد، کینہ۔
سمجھ نہیں آ رہی کہ ماضی کی یادوں سے شروع کروں یا حال کا رونا روؤں، مستقبل کی تو خیر بات ہی نہیں کرتا۔ کیا کہوں یا بس خاموش ہی رہوں؟ رونا بہتر ہے یا خاموشی یا سب کچھ سے انکار کرنا؟
خضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کو اپنے ارادے ٹوٹنے سے پہچانا ہے۔
کبھی کبھی بندہ بہت کچھ بولنے کے لئے ہونے کے باوجود بھی خاموش رہتا ہے۔ شاید دل اور دماغ میں لڑائی جھگڑے کی وجہ سے۔ دماغ حقیقتوں کو سمجھتا ہے اور اس پہ دل کو بھی کہتا ہے کہ یہ بات مان لو لیکن دل کی ایک الگ دنیا ہے۔ وہ اسی بات کو حقیقت مانتا ہے جو اس کو اچھی لگتی ہے۔ دل فانی لافانی کے چکروں سے آزاد ہے۔ دل ہر اس چیز کو جس سے وہ محبت کرتا ہے، ہر اس رشتے کو جو وہ ایک بار منظور کر لیں، وہ پھر اس کو ابدی سمجھتا ہے۔ دل کبھی کسی چیز کو اختتام نہیں سمجھتا۔ وہ تو موت کو بھی انسان کے ایک فانی دنیا سے ایک لافانی دنیا میں کوچ سمجھتا ہے۔ دل حقیقتوں کا محتاج نہیں، دل جس چیز کو ٹھیک سمجھتا ہے اس کے لئے اس کو ثبوتوں اور دلیلوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دل کہتا ہے حضرت حسینؓ حق پہ تھا، اہل بیت حق پہ تھے۔ بس یہی بات آخری اور ختمی ہے۔ لیکن دماغ کہتا ہے تاریخ پڑھو، پوری کہانی دیکھو، مختلف کتابوں کے حوالے سنو۔
دل کو میں دماغ سے زیادہ قابل تقلید سمجھتا ہوں کیونکہ دل اللہ کو ایک مانتا ہے اس کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں لیکن دماغ کو تو اللہ کے ماننے کے لئے بھی دلیلوں کی ضرورت پڑتی ہیں۔ اور دل کی مزے کی بات کہ اس میں اللہ بھی رہتا ہے۔ اب جہاں اللہ رہتا ہو اس کو صاف رکھنا ضروری ہے۔
اب دماغ موت کو بندے کا مٹنا کہتا ہے اور دل کہتا ہے موت بندہ کو فانی سے لافانی کرتا ہے۔ مٹی کے انسان کو نور کر جاتا ہے۔ اپنے بندے کو اپنے پیارے رب کی طرف لے جانے کا ایک عمل ہے۔ موت اصل زندگی ہے۔ موت اس دنیا کی جیل سے رہائی پانے کا نام ہے۔ موت عروج تک بندے کے سفر کا نام ہے۔ موت عروج تک پہنچنے کا نام ہے۔
اتنی زندگی گزر جانے کے باوجود بھی دل، اللہ کا شکر ہے دماغ کی حقیقتوں سے آزاد ہے۔ ہاں، دماغ نے تنگ بہت کیا ہے۔ اس لئے خاموشی اچھی لگی۔ میں دماغ کے منہ نہیں لگنا چاہتا تھا۔