لمبے ہاتھ اور کاریگر دماغ: ایک سابق مشیر کی کہانی

لمبے ہاتھ اور کاریگر دماغ: ایک سابق مشیر کی کہانی
فقط چند دن پہلے پرائیویٹ چینلز کے لئے پاکستان ٹیلی وژن سے یکطرفہ بیان دیتے ہوئے خیبر پختونخوا کے سابق مشیر اطلاعات اجمل وزیر نے اپوزیشن جماعتوں کے خلاف سخت اور بغیر دلائل کے الزامات لگائے تھے جو پاکستان تحریک انصاف کے بیانیہ کی ایک شاخ ہے۔ کہتے ہیں کہ اتنا جھوٹ بولو اتنا جھوٹ بولو کہ لوگوں کو پہلے شک اور بعد میں یقین ہو جائے کہ ایک کروڑ نوکریاں، ہزاروں گھر اور ہر ملازم کو دو لاکھ کی تنخواہ بھی ملے گی۔ یہ سب کچھ پی ٹی آئی کے جلسوں کے نعروں کے ساتھ ساتھ منشور کا بھی حصہ تھا جس پر برگر بوائز اور گرلز سروں کو ہلاتے تھے۔

چند ہفتہ پہلے اجمل وزیر اپنا پاسپورٹ تبدیل کر رہا تھا۔ معلوم نہیں کہ اجمل وزیر کو گرے کلر سے چڑ تھی یا کوئی اور وجہ تھی کہ انھوں نے بہت زور لگایا تھا لیکن وہاں پر جب تعلیم کا خانہ آ گیا تو افسر کو کہا کہ اس میں انگریزی کا ’ادر‘ لکھ دے۔ اگرچہ وہاں پر کچھ نہ کچھ لکھنا پڑتا ہے۔ خیر چھوڑ دیں۔ اس پارٹی کا ارسطو اور افلاطون تو خسرو بختیار اور اسد عمر تھے۔ انھوں نے بھی کیا گل کھلائے؟ حتیٰ کہ صوبائی وزیر تعلیم بھی دسویں تک سکول گیا ہے۔
اپنی تعلیم کو چھپانے والے اجمل وزیر میں کوئی خاص کوالٹی نہیں تھی۔ نہ تو بہترین مقرر تھے اور نہ جواب دینے میں ماہر تھے مگر پتہ نہیں کیسے پشاور کا طاقتور گھر وزیرستان اور اسلام آباد میں سکونت اختیار کرنے والے فرد پر مہربان تھا۔ شاید اس لئے کہ عثمان بزدار کے بھائی اور ان سے بھی انتہائی کمزور وزیراعلیٰ محمود خان کی ٹیم بھی کسی اور کے اشاروں پر چلے اور عوام ووٹ، قانون سازی اور جمہوریت کو نااہلوں کا جمگٹھا تصور کریں۔ اصل مجرم تو پی پی پی، اے این پی اور مسلم لیگ ن سمیت دوسری جماعتیں ہیں۔ انہی لوگوں نے پی ٹی آئی اور ان کے دوستوں کو اٹھارہویں آئینی ترمیم پر دیوار کے ساتھ لگایا ہوا ہے۔ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل خان نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ یہ ترمیم اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں، دونوں ساتھ جئیں اور مریں گے۔ وفاقی حکومتی کرسیوں پر عقلمند یا دلیل سے بات کرنے والے بالکل بھی ناپید ہیں۔ بھئی اٹھارہویں آئینی ترمیم تو فیڈریشن کو طاقت دینے کے لئے ہے۔
اصل مدعہ اجمل وزیر ہے۔ کئی سال پہلے اسلام آباد کی اقرا یونیورسٹی میں پشتون بیلٹ کے حوالے سے ایک سیمینار میں اجمل وزیر پر چند سوالات داغے تھے جس پر انھوں نے کہا کہ میں چوہدری برادران کو استعفیٰ اس لئے نہیں دے رہا ہوں کیونکہ میں سجھمتا ہوں کہ سسٹم میں رہ کر میری آواز کا وزن اور سننے والے بندوں کی تعداد زیادہ ہے اور باہر آ کر نقارخانے میں طوطی کی کوئی نہیں سنتا۔

مسلم لیگ ق سے باقاعدہ طور پر سیاسی کریئر شروع کرنے والا اجمل وزیر چونکہ طاقتور حلقوں کے منظور نظر افراد میں تھے، سیانے کہتے ہیں کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو کسی کے اشارے پر ہی اجمل اس جماعت کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔

جب وہ اسلام آباد کے پڑوسی شہر سے پیراشوٹ پر پشاور میں اترے تو خیبر پختونخوا کے پی ٹی آئی ورکرز نے ایک حد تک احتجاج بھی کیا مگر عمران خان ورکرز سے زیادہ اپنے محسن لوگوں کی سنتے ہیں۔

بعد میں اجمل صاحب صوبائی ترجمان سے مشیر اطلاعات بنے تو ان کا ایک یاد کیا ہوا جملہ ہر صحافی کو ازبر ہو گیا۔ ’ وزیر اعلیٰ کی ہدایات اور عمران خان کے وژن کے مطابق‘۔ باقی وہی ’دیں گے‘، ’کریں گے‘، ’ہو گا‘ وغیرہ۔ پشاور کے چند برائے نام اصول پسند صحافیوں کو اکثر اجمل وزیر کے ارد گرد دیکھا جاتا تھا، جن کے لئے سابقہ مشیر نے سکینڈل آڈیو پیغام میں ایک جملہ بھی استعمال کیا ہے جو لکھنے کے قابل نہیں ہے۔ تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو، ہمیں تو یاد ہے۔

امید ہے کہ یہ تمام قلم کے غازی اس کے بعد حکومتی اہکاروں کے دوست اور بغیر تنخواہ کے مشیر نہیں بنیں گے اور نہ اطلاعات سیل کے دوستوں کی چغلیاں کریں گے کیوںکہ چغل خور شیطان کا بھائی ہوتا ہے۔ کئی صحافی دوستوں کو پریس کانفرنس سے پہلے کہتے کہ یہ یہ سوالات کریں۔ وزیر اعلیٰ کے قریب رہنے والے سابقہ مشیر اطلاعات سے دوسرے وزرا اور ایم پی اے بھی جلتے تھے۔  پرائیویٹ محفلوں میں کہا کرتے تھے کہ سیاسی گاڈ فادر کے ساتھ اب اسٹبلشمنٹ میں بھی کسی کا ہونا ضروری ہوگیا ہے۔  اب یہی سننے میں آ رہا ہے کہ اطلاعات والا کھاتہ اسلام آباد ہی کے کسی صحافی کے نام نکلنے والا ہے پشاور کے دوست ویسے ہی اسلام آباد میں رہائیش پذیر لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں مگر معلوم نہیں کہ پشاور ہی کے اعظم خان اور ارباب شہزاد کیسے وزیراعظم ہاؤس میں اب تک براجمان ہیں ۔
کمال کی بہادری تو اجمل وزیر کی یہی تھی کہ تمام بھائیوں کو بہترین سرکاری گاڑیاں گفٹ کی گئی تھی ایک بھائی ورکر ویلفئیر بورڈ میں کلرک اور دوسرا بھائی اسی ڈیپارٹمنٹ میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ دوسرے بھائی کو سپرنٹنڈنٹ کے پوسٹ سے اٹھا کر مہارت سے ڈائرئکٹرکالونی لگایا۔ کوئی مسئلہ نہیں پاکستانی سیاست سمیت ہر طاقت ور ادارے میں اسی طرح ہوتا ہے کیوںکہ بھائیوں کا حق بھی بنتا ہے اس کے ساتھ پڑوس میں غیر مسلم خاندان کو گھر سے نکالنے کے لئے بھی ان کو دھمکی دی تھی۔ حتی کہ گاؤں سے ایک فیملی بھی لے کر آئے تھے لیکن بعد میں انفارمیشن محکمہ کے ایک افیسر نے معاملہ سلجھا دیا۔

اطلاعات سیل میں اور محکمہ میں چند ناٹی افسران نے مٹھائی لانے کا اعلان بھی کیا ہے کیوںکہ اجمل وزیر کسی کے ساتھ بھی انسانی رویہ نہیں رکھتے تھے اور ان کو ذلیل کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔  کیونکہ انھوں نے کب ووٹ کے لے عوام کی طرف جانا تھا۔ ایک بار کسی بات پر غصہ ہوئے تو تمام ڈیپارٹمنٹ کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں تم سب کی تنخواہ بند کردوں گا۔

اس خبر پر بھی محکمہ اطلاعات کے وٹس گروپس میں ایک دوسرے کو مبارکبادی بھی دی گئی تھی. ہر وقت میڈیا میں رہنے والے اجمل وزیر آج اسی میڈیا اور سوشل میڈیا (وٹس ایپ پیغام ) کی وجہ سے سیاسی اکھاڑے سے ایک نامعلوم وقت کے لئے باہر ہوگئے ہیں۔ کیوںکہ ایک آڈیوکلپ کی وجہ سے ہی اجمل کے ساتھ سابقہ کا لفظ لگ چکا ہے۔ اجمل پر مشیر بلدیات کامران بنگش نے الزامات لگائے کہ انھوں نے اشتہاری کمپنی سے کمیشن لی تھی اور ساتھ بھائیوں کو بھی غیر قانونی طریقوں سے کمانے کے مواقع فراہم کئے تھے ۔ معصوم اجمل وزیر پروٹوکول کے بڑے دلدادہ تھے اور ہمیشہ ماتحت آفیسرز کو کہتے کہ اپنی گاڑی مجھ سے آگے دوڑائے۔
ایک بات کا کریڈٹ تو اجمل وزیر کو ضرور جاتا ہے کہ پشتون تخفظ موومنٹ کے حوالے سے اپنے آپ کو ہمیشہ بے خبر ہی رکھتے تھے۔ اگرچہ ایسا کرنا ضمیر پر بوجھ بن جاتا ہے ایک بات کا ہر کوئی معترف ہے کہ پاکستانی سیاست میں ایک غیر معروف خاندان کا ایک جوان کا اتنا بڑا گبرو بننا کمال ہے۔ کیوںکہ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں سیاست کے لئے تگڑے خاندان سمیت پیسے والا بیک گراؤنڈ کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔  وزیر اعلیٰ محمود خان کی ہدایات اور عمران خان کے وژن کے مطابق جملے کا خالق شاید ہم کبھی اسی پوزیشن میں سن یا دیکھ سکیں گے۔

مصنف پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان سے رابطہ ٹوئٹر پر @theraufkhan کیا جا سکتا ہے۔