Get Alerts

'اگلے وزیراعظم کے نام پر اتفاق ہوگیا'

'اگلے وزیراعظم کے نام پر اتفاق ہوگیا'
سینئر صحافی نجم سیٹھی نے انکشاف کیا ہے کہ بلاول بھٹو کے حالیہ بیان کےبعد امکان ہے کہ پیپلز پارٹی شاید پی ڈی ایم میں واپس آجائے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ بلاول بھٹو کا ماننا ہے کہ اگر ساری اپوزیشن استعفوں کی بجائے عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجنا چاہتی ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں، نجم سیٹھی نے کہا کہ اب امکان ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری بھی اپنا کردار ادا کریں گے اس لئے آنے والے دنوں میں انہیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی ملاقاتیں ہوتی نظر آرہی ہیں۔

نجم سیٹھی نے 24 نیوز کے پروگرام نجم سیٹھی شو میں کہا کہ دونوں جماعتوں کی بات جہاں اٹکی ہوئی ہے وہ ایک تو نمبر گیم ہے اور میرے خیال میں نمبر گیم بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اگر انہوں نے فیصلہ کر لیا تو نمبرز انہیں مل جائیں گے، بہت سے لوگ بھاگنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں جنہوں نے اس وقت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے اگر اسٹیبلشمنٹ کچھ نہ بھی کرے اور صرف نیوٹرل رہے تو وہ آ جائیں گے۔

نجم سیٹھی نے بتایا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ابھی فیصلے ہونے ہیں کہ اس کے بعد جو حکومت بنے گی اس کا ڈھانچہ کیا ہوگا اور وزیراعظم کون بنے گا؟ ایک تجویز یہ ہے کہ بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنا دیا جائے، لیکن پیپلز پارٹی کے لوگوں نے ان کے مقابلے میں کہہ دیا ہے کہ 'خادم حاضر ہے'، لیکن میں اب یہ بات بتا دیتا ہوں کہ یہ معاملات طے ہو گئےہیں، نام پر بھی اتفاق ہو چکا ہے، تاہم وہ نام نہیں بتا سکتا کہ کس کے اوپر ہاتھ رکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دو تین چیزیں طے ہو چکی ہیں، سب سے اہم بات جو طے ہو چکی ہے وہ یہ کہ اگلی حکومت آئے گی تو وزیراعظم کون ہوگا، اس کے نام پر اتفاق ہوگیا ہے لہذا عمران خان صاحب کی نیند حرام ہو جانی چاہیئے۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے نام آئے تھے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرف سے بھی بہت نام تھے مگر اب ایک نام پر اتفاق ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کل 4 سٹیک ہولڈرز ہیں ، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، مولانا اور چوتھا نا معلوم سٹیک ہولڈر، ان تمام کے درمیان اتفاق ہو چکا ہے، اب اور کیا چاہیئے؟

میزبان سیدہ عائشہ ناز نے نجم سیٹھی سے صدراتی نظام کے حوالے سے سوال کیا اور پوچھا کہ آج کل صدراتی نظام کی بڑی بازگشت چل رہی ہے اس کے پیچھے کون ہے اور آیا اس پر کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے۔ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی رائے آج سے نہیں بلکہ ستر سالوں سے چلتی آرہی ہے کہ اس ملک میں پارلیمانی نظام نہیں چل سکتا۔ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ ایک سنٹرل سٹیٹ ہونی چاہیئے جس کے اندر ان کا کردار کلیدی ہونا چاہیئے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ہی ہے جو اس ملک کو اکٹھا کر کے بیٹھی ہوئی ہے ورنہ ہر کسی نے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا رکھی ہے۔

نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ جب اسٹیبلشمنٹ ایسے سوال کرتی ہے تو جواب یہ آتا ہے کہ غلام محمد نے 2 وزیراعظم کی چھٹی کروائی، گورنر کے بھی وہی اختیار تھے جو صدر کے ہیں۔

انہوں نے پاکستان میں صدارتی نظام کی تاریخ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ تاریخ یہی رہی ہے کہ صدر ہی وزرائے اعظم کو ڈسمس کرتے رہے ہیں، تاریخ دیکھیں تو پچاس کی دہائی میں گورنر جنرل کے اختیارات صدر والے ہی تھے، اس دوران حکومتوں کو لایا اور بھیجا گیا تب بھی صدراتی نظام ہی تھی۔ اس کے بعد ایوب خان آئے تب ون یونٹ بن گیا ، انہوں نے بنیادی جمہوری نمائندوں کے ذریعے ایک پارلیمنٹ بنائی، جو کہ ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ تھی کیونکہ فیصلے وہی کرتے تھے، کابینہ بھی انہوں نےہی بنائی۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو بھی پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے، ان کی چھٹی بھی ان صاحب نے کی جو بعد میں خود صدر بن گئے۔ اس وقت بھی ملک میں صدراتی نظام چلتا تھا، پارلیمنٹ کو انگوٹھے کے نیچے رکھ کر فیصلے کروائے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے چند سالوں کے علاوہ تو باقی صدارتی نظام ہی چلتا رہا، اور فیل ہوتا رہا، اگر فیل نہ ہوتا توشاید چلتا رہتا۔ پھر جیسے صدارتی نظام فیل ہوتا تھا تو پارلیمانی نظام کی طرف واپس آجاتے تھے اور پھر پارلیمانی نظام کو اور تھرو کرتے تھے اور یہی سلسلہ چلتا رہا۔ اسی طرح پھر جنرل مشرف نے بھی صدراتی نظام ہی چلایا، جبکہ 90 کی دہائی میں غلام اسحاق خان نے ایک نہیں بلکہ تین حکومتوں کو ختم کیا، اسی طرح فاروق لغاری کا بھی یہی کردار رہا۔ آصف زرداری کے آنے کے بعد پاکستان میں اصل پارلیمانی نظام بحال ہوا، جہاں صوبوں اور لوکل گورنمنٹس کو حقوق دئیے گئے۔

نجم سیٹھی نے کہا کہ دراصل صدارتی نظام ہی اس ملک کی تباہی کا ذمہ دار ہے اور اسی کی وجہ سے بنگلہ دیش علیحدہ ہوا جب یحییٰ خان صاحب کا زمانہ تھا اور ملک میں صدارتی نظام رائج تھا۔ بنگال والوں کو یہ شکوہ تھا کہ ہمیں حقوق نہیں دئیے جارہے، اگر پارلیمانی نظام ہوتا تو شیخ مجیب وزیراعظم بنتا۔

نجم سیٹھی نے بتایا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایوب کا زمانہ ترقی کا دور تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ دور پاکستان کی تباہی کا باعث بنا۔ اسی دور میں پاکستان کو توڑنے کے بیج بوئے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ ایوب خان کے دور میں بلوچستان میں بغاوت ہوئی، انہی کے دور میں بنگلہ دیش کا مسئلہ بنا، الزام لگا تھا کہ ایوب خان کے زمانے میں تین چیزیں ہوئیں، ایک یہ کہ جی ڈی پی چار سے پانچ فیصد تک بڑھی، اس دوران امیر و غریب کی تفریق بڑھی، 22 خاندان اس ملک پر حکمرانی کرتے تھے جبکہ امیر اور غریب کے درمیان فرق بہت بڑھتا چلا گیا ، اسی طرح مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان گیپ بڑھ گیا تھا، اس گیپ کی وجہ سے بغاوت ہوئی، اور ادھر ون یونٹ بنانے کی وجہ سے بلوچستان میں بھی بغاوت ہوئی، لہذا ایوب خان کی وجہ سے یہ ملک ٹوٹا ہے۔

نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ایوب خان کی وجہ سے امیر، امیر تر ہوئے جبکہ غریب غربت کی چکی میں پستے چلے گئے۔ اس دور میں معیشیت کی 5 فیصد گروتھ صرف امیر لوگوں کی ہوئی تھی، اور اس کے پیچھے کوئی پالیسی نہیں بلکہ امریکہ کا ہاتھ تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ایوب دور میں امریکہ نے پاکستان کو پولیس مین کے طور پر تعینات کیا تھا کہ آپ روس کے خلاف ہمارے ساتھ سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں پر دستخط کریں، اس دور میں پشاور بیس امریکہ کو دی گئی جس کے بعد روس سے بھی پاکستان کو دھمکیاں ملیں، اسی لئے وہ سارا پیسا امریکہ کی جانب سے بطور کرایہ ہمیں دیا جاتا تھا۔ اس کرائے کے ذریعے امیروں کی معشیت بڑھی اور امیروں کی ہی ترقی ہوئی ، غریبوں کی کوئی ترقی نہیں ہوئی۔

https://www.youtube.com/watch?v=VSw25_uX2Vc