یہ بصارت کُش اندھیرے؛ قید میں گزرے سالوں کی ہولناک کہانی سناتا ناول

طاہر بن جلون خود تو ان قیدیوں کے ساتھ قید ہے ہی، آپ کو بھی اس زندان سے باہر نہیں آنے دیتا۔ پھر یہ تخصیص مشکل ہو جاتی ہے کہ سانس لینے میں دشواری اصل میں طاہر بن جلون کو محسوس ہو رہی ہے، تازمامرت جیل کے نیم زندہ نیم مردہ قیدی کو یا پھر پڑھنے والے کو۔ یہاں قاری بھی خود کو تازمامرت جیل میں قید پاتا ہے۔

یہ بصارت کُش اندھیرے؛ قید میں گزرے سالوں کی ہولناک کہانی سناتا ناول

مراکش سے تعلق رکھنے والے ادیب طاہر بن جلون کا ناول 'یہ بصارت کُش اندھیرے' ادبی رسالہ آج کے شمارہ نمبر 112 میں شائع ہوا۔ اس کا ترجمہ ارجمند آرا نے کیا ہے۔ اگرچہ 210 چھوٹے صفحات پر محیط یہ ایک مختصر ناول ہے مگر یہ صفحات بھی پڑھنے والے کے لیے کسی طویل ہارر فلم سے کم نہیں ثابت ہوتے۔

جولائی 1971 کی ایک صبح مراکش کی فوج کے ایک ہزار سپاہی بادشاہ سلطان حسن الثانی کے محل میں پہنچتے ہیں۔ بادشاہ اپنی سالگرہ کی تقریب منا رہا ہے۔ سپاہی کمانڈنگ افسروں کے حکم پر بادشاہ کو قتل کرنے کی مہم شروع کرتے ہیں جسے شاہ کے محافظ ناکام بنا دیتے ہیں اور اس بغاوت میں حصہ لینے والے سپاہیوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ سپاہیوں کو مختصر سماعت کے بعد موت کی سزا سنا دی جاتی ہے اور باقیوں کو قید میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ناول انہی قیدیوں کے شب و روز کا دل دہلا دینے والا اور روح چھلنی کر دینے والا بیان ہے۔مراکش کے حکمران سلطان حسن الثانی جن کے خلاف بغاوت ہوئی

قید کی مصیبتوں اور انسانوں کی ساتھی انسانوں سے روا رکھی جانے والی سفاکیوں کو پڑھ کر آپ خوف محسوس کرنے لگتے ہیں۔ انسان جب ساتھی انسانوں سے انتقام لینے پہ آتے ہیں تو وہ کس درجے تک پہنچ سکتے ہیں، یہ سب اس ناول کے بیانیے میں شامل ہے۔ میں نے یہ ناول ایک ہی سٹنگ میں ختم نہیں کیا بلکہ وقفے لے لے کر پڑھا ہے اور میرے خیال میں اس ناول کو پڑھنے کا یہی طریقہ بہتر ہے۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں اور حصوں میں تکلیف کی گھڑیاں گزارنا نسبتاً آسان کام ہے۔ اتنی دردناک کہانی اگر ایک ہی سانس میں اندر اتار لی جائے تو آپ کو حد سے زیادہ بے حال کر سکتی ہے۔ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ یکسوئی سے پڑھتے پڑھتے کہیں آپ کے کلیجے میں شدید درد اٹھے اور آپ جانبر نہ ہو سکیں یا یہ کہ آپ کا دل خودکشی کرنے پہ آمادہ ہو جائے یا یہ کہ آپ بندوق اٹھا کر دنیا کے تمام ظالموں اور غاصبوں کے خلاف لڑنے کو نکل کھڑے ہونے پہ تیار ہو جائیں۔ ناول آپ کو ایسی ہی کیفیات سے دوچار کرتا ہے۔

طاہر بن جلون خود تو ان قیدیوں کے ساتھ قید ہے ہی، آپ کو بھی اس زندان سے باہر نہیں آنے دیتا۔ پھر یہ تخصیص مشکل ہو جاتی ہے کہ سانس لینے میں دشواری اصل میں طاہر بن جلون کو محسوس ہو رہی ہے، تازمامرت جیل کے نیم زندہ نیم مردہ قیدی کو یا پھر پڑھنے والے کو۔ یہاں قاری بھی خود کو تازمامرت جیل میں قید پاتا ہے۔

ناول کی فضا قید کی فضا کی طرح انتہائی ناگواری کا احساس اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس میں آپ غلاظتوں سے ہمکنار ہو رہے ہیں، آپ کے اردگرد پیشاب کی بدبو ہے، آپ کے جسم پر پاخانہ چپک گیا ہے، قے سے پیدا ہونے والی بو آپ کے نتھنوں میں چھید کیے جا رہی ہے، آپ کے جسم کی ہڈیاں مُڑتڑ گئی ہیں، پسلیوں کا پنجر اپنی جگہ سے ہل گیا ہے اور دل اور پھیپھڑے بری طرح سے اس کی بھینچ میں آ گئے ہیں، آپ سیدھے نہیں کھڑے ہو سکتے کیونکہ اس کوشش میں آپ کا سر جھکے ہوئے تاریک آسمان سے جا ٹکراتا ہے۔ جھک جھک کر چلتے رہنے سے آپ کی کمر ٹیڑھی ہو گئی ہے اور آپ دن بہ دن کُبڑے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ خود کو سردی سے بچا پاتے ہیں اور نہ گرمی سے۔ روشنی کا چھینٹا بھی آپ کو میسر نہیں۔ بچھو، کاکروچ آپ کے اردگرد منڈلا رہے ہیں اور آپ اندھیرے میں محض ان کی سرسراہٹ سے ان کی سمت کا تعین کر کے خود کو ان سے بچانے کی دماغ کو ماؤف کر دینے والی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ آپ کو سخت فرش پر سو سو کر اب بستر کی نرمی بھی ناقابل برداشت لگنے لگتی ہے۔ آپ جھٹ سے اپنے بستر سے الگ ہو کر فرش پر لیٹ جاتے ہیں۔

اور پھر ناول کے صفحات سے گزرنے کے بعد آپ ایک نئی صورت حال سے دوچار ہو چکے ہوتے ہیں۔ آپ اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو پانی سے بھرا جگ جو آپ کے کمرے میں موجود ہے، آپ کو دنیا کی سب سے بڑی نعمت نظر آنے لگتا ہے۔ آپ واش روم جاتے ہیں اور پانی کی ٹونٹیوں کو تشکر بھری نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ آپ کو تسلی ہے کہ ان کے کھلتے ہی پانی کا فوارہ چھوٹ پڑے گا اور اس پانی کو آپ اپنے لمس سے محسوس کر سکتے ہیں، اس سے آپ کلی کر سکتے ہیں، ہاتھ منہ دھو سکتے ہیں، شیو بنا سکتے ہیں، اپنے جسم کی صفائی کر سکتے ہیں، نہا سکتے ہیں، کپڑے دھو سکتے ہیں اور جو آپ کا جی چاہے وہ کر سکتے ہیں۔ آپ کو یہ نعمت بھی کسی عیاشی سے کم نہیں محسوس ہوتی کہ آپ روز صبح سویرے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ آپ اپنے چہرے پر عمر گزرنے کے آثار روزانہ کی بنیاد پہ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ آپ کھلی ہوا میں سانس لے سکتے ہیں۔ اپنی مرضی کی جگہوں پہ آ جا سکتے ہیں۔ دوسرے انسانوں سے آزادانہ میل جول رکھ سکتے ہیں۔ خوشبوئیں محسوس کر سکتے ہیں۔ آپ کی ذائقے کی حس سلامت ہے۔ آپ کی آنکھیں پر سکون ہیں۔ تازمامرت جیل کے قیدیوں کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد آپ کو یہ سب چیزیں جو عام طور پر چھوٹی چھوٹی اور معمولی محسوس ہوتی تھیں، اچانک عظیم الشان نظر آنے لگتی ہیں۔ آپ زندگی کی قدر کرنے لگتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزوں سے لطف اٹھانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔

قید کا دورانیہ 20 سال پہ محیط ہے جو ایک فرانسیسی صحافی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی چیخ و پکار کے بعد اختتام کو پہنچتا ہے۔ اگر جیل کے باہر سے مدد نہ پہنچتی تو یہ قید خانہ بھی دنیا میں جگہ جگہ بنے باقی قید خانوں کی طرح ہمیشہ نظروں سے اوجھل ہی رہتا۔ ایسے قید خانے ساتھی انسانوں سے کسی اختلاف کے باعث انہیں زندگی سے محروم کرنے کے لیے وقت، تاریخ اور جغرافیے کی تاریکیوں میں تعمیر کیے جاتے ہیں اور اکثر بے نشان ہی رہتے ہیں۔ اگر کہیں ان کے بارے میں پتہ چل بھی جائے تو بھی ان کا وجود ایسے ہی ختم کر دیا جاتا ہے جیسے ناول میں راتوں رات ختم کیا گیا ہے۔ بلڈوزر چلتے ہیں، ظلم کی باقیات مٹا کر ان پر آن کی آن میں دھوکے کے درخت اگا دیے جاتے ہیں۔ ان قبرستانوں کو نخلستانوں میں بدل کر دیکھنے والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک دی جاتی ہے۔

تازمامرت جیل میں کل 58 لوگ قید تھے جن میں سے 20 سال پورے کرنے کے بعد محض 25، 28 ہی نیم زندہ نیم مردہ حالت میں باقی بچ پاتے ہیں۔ جس اذیت سے ان لوگوں کو موت سے ملوایا گیا اس کی تفصیلات رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔

بچ جانے والے قیدی باہر والوں کے لیے عجوبوں سے کم نہ تھے۔ قید خانے کے محافظ بھی اس بات پر حیران تھے کہ یہ لوگ کس قدر ڈھیٹ ہیں جو 20 سال نکال گئے، ورنہ جس قسم کے انتظامات کیے گئے تھے انہیں لگ رہا تھا کہ سال بھر میں ہی سب ختم ہو جائیں گے اور انہیں قید خانے کی نگرانی سے رہائی مل جائے گی۔ یہ لوگ جب واپس گھروں کو پہنچتے ہیں تو سماجی، معاشرتی، نفسیاتی، جنسیاتی غرضیکہ ہر اعتبار سے مس فٹ ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس لیے معاشرے کا حصہ نہیں بن سکتے۔ ہالی ووڈ فلم 'دی شاشینک ریڈیمشن' کا بروکس بھی اسی مخمصے میں مبتلا تھا کہ ساری عمر قید خانے میں گزارنے کے بعد اب رہائی مل رہی ہے تو باہر جا کے کیسے رہوں گا۔ وہ سچ میں جیل سے رہا ہو کر جب باہر کی دنیا میں آتا ہے تو اس سے ڈر جاتا ہے اور اسی خوف میں پھندے سے جھول جاتا ہے۔ بروکس کی ایک جھلک اس ناول میں بھی نظر آتی ہے جب کہانی سنانے والا قیدی رہا ہو کر گھر لوٹتا ہے۔

وہ لوگ جو ساتھی انسانوں سے جینے کا حق چھین لیتے ہیں، دوسروں سے ان کے حصے کی روشنی، ہوا، نیند، بھوک، چین، خواب سب کچھ چھین لیتے ہیں وہی لوگ ہماری دنیا کی سب سے بڑی بیماری ہیں۔ ان ذہنی معذوروں کو علاج کی اشد ضرورت ہے۔ اگر یہ صحت یاب ہو جائیں تو زندگیاں معطل کرنے والا یہ نظام بھی دم توڑ جائے گا، قید خانے بے نقاب ہو جائیں گے، انسانوں کو انسانوں کا درجہ مل جائے گا، آزادی کسی نایاب چڑیا کا نام نہیں رہے گی، بہت کچھ نارمل ہو جائے گا۔ ایسا ہو جائے تو دنیا رہنے کے لیے ایک خوشگوار جگہ بن سکتی ہے۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔