ملک ریاض اور ان کے بیٹے کی تمام جائیدادیں منجمد کر دی گئیں

حکم میں قومی احتساب بیورو کو حکم دیا گیا ہے کہ بحریہ ٹاون اور ملک ریاض حسین کے تمام خاندان کے تمام جائیدادیں ایک ہفتے میں منجمد کردی جائیں۔ تمام بڑے دفاتر کی جائیدادیں بھی منجمد کردی جائیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان تمام جائیدادوں میں بحریہ ٹاون دفاتر، بحریہ سینما، بحریہ سکول بلڈنگ، بحریہ مرکی اوربحریہ میڈیا ہاوس بھی شامل ہیں۔

ملک ریاض اور ان کے بیٹے کی تمام جائیدادیں منجمد کر دی گئیں

ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض ملک کے تمام اثاثے اور بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے۔

احتساب عدالت  کےجج محمد بشیرنے 12 جنوری کو 190 ملین پاؤنڈز کے القادر ٹرسٹ ریفرنس میں اثاثے منجمدگی کا حکم دیاتھا۔ عدالت کے حکم نامے کے تحت پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور ان کے صاحبزادے کی تمام جائیدادیں، گاڑیاں اور بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں۔

جج بشیر کی احتساب عدالت نے بحریہ ٹاون اور ان کے مالک ملک ریاض حسین اور ان کے بیٹے کے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اثاثہ جات منجمد کرنے کا حکم دیا۔ 

حکم میں قومی احتساب بیورو  ( نیب)کو حکم دیا گیا ہے کہ بحریہ ٹاون اور ملک ریاض حسین کے تمام خاندان کے تمام جائیدادیں ایک ہفتے میں منجمد کردی جائیں۔  تمام بڑے دفاتر کی جائیدادیں بھی منجمد کردی جائیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان  تمام جائیدادوں میں بحریہ ٹاون دفاتر، بحریہ سینما، بحریہ سکول بلڈنگ، بحریہ مرکی اوربحریہ میڈیا ہاوس بھی شامل ہیں۔

عدالت نے ملک ریاض، علی ریاض ملک، فیصل سرور، ملک حبیب اور سلیمان خان کی تمام جائیدادیں اوربینک اکاونٹس منجمد کیے جارہے ہیں۔ بحریہ ٹاون کی تمام گاڑیاں، بینک اکاونٹس اور دفاتر کی جائیدادیں بھی منجمد کی جائیں گی۔ نیب کی ٹیم بحریہ ٹاون کے تمام اثاثوں کو اپنی تحویل میں لے گا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اس حکم نامے میں سابق وزیراعظم کے معاونین زلفی بخاری اور شہزاد اکبر، فرحت شہزادی عرف فرح خان گوگی اور ایک وکیل ضیا المصطفیٰ نسیم کی جائیدادیں بھی منجمد کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

عدالت نے ملک بھر کے ریونیو افسران کو ملزمان کی غیر منقولہ جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افسران کو ان کے ناموں پر رجسٹرڈ گاڑیاں ضبط کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔

عدالت نے کمرشل بینکوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ ان کے کھاتوں کو منجمد کریں اور لین دین یا سرمایہ نکالنے کی اجازت نہ دیں۔

عدالت نے ان ملزمان کی ملکیتی جائیدادوں سے کرائے کی آمدنی حاصل کرنے کے لیے نیب کے ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر کو بطور رسیور بھی مقرر کیا تھا۔

احتساب عدالت کے حکم کے مطابق تمام بینک اکاونٹس، رینٹل امدنی اوراثاثوں کی تمام ملکیت نیب کے چلی جائے گی۔   نیب کی ٹیم سات دنوں کے اندر احتساب عدالت میں عمل درامد رپورٹ پیش کرے گی۔

واضح رہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔

یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔

عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا۔ رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔