آپ شہنشاہ نہیں ہیں۔ اگر آپ خود کو اس ملک کے جمہوری اداروں کی پیداوار کہتے ہیں تو جمہوری رویہ بھی اپنائیں۔ عالمگیر اورنگزیب کا نام سنا ہے، آج دیکھ بھی رہے ہیں ہم۔ یہ کہنا تھا حال ہی میں حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کرنے والے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل کا وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں عمران خان کا طرزِ عمل شہنشاہوں جیسا لگتا ہے۔
نیوز ون پر اینکر طارق محمود کے ساتھ ایک انٹرویو میں اختر مینگل نے اپنے سابق اتحادی عمران خان کے بارے میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ لیتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی نے تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کیا لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے خود سے پہل کرتے ہوئے پارلیمانی سربراہوں کا اجلاس بلایا لیکن اس میں وزیر اعظم صاحب خود آئے، اپنی تقریر جھاڑی اور پھر اٹھ کر چلے گئے۔ یہ طریقہ نہیں ہوتا ہے۔ آپ کوئی شہنشاہ نہیں ہیں۔ اگر آپ خود کو اس ملک کے جمہوری اداروں کی پیداوار کہتے ہیں تو پھر اپنا طرزِ عمل بھی جمہوری بنائیں۔
حکومتی اتحاد سے اپنی علیحدگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ حکومت نے ان سے جو وعدے کیے تھے ان میں سب سے اہم گمشدہ افراد کی بازیابی کا تھا لیکن حکومت نے اس سلسلے میں کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔
پروگرام میں بات کرتے ہوئے انہوں نے ریاستی اداروں پر بھی تنقید کی۔ اختر مینگل کا کہنا تھا کہ سرکار کی سرپرستی میں جرائم ہوتے ہیں جو کہ پہلے بھی ہوتے تھے لیکن وہ بدستور جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ علاقوں میں ریاست نے اپنے کچھ گروپس بنائے ہوئے ہیں جنہیں جب میں 2012 میں سپریم کورٹ آیا تھا تب بھی ڈیتھ سکواڈ کا نام دیا تھا۔
یہ گروہ پورے بلوچستان میں ہیں جنہیں کبھی کبھی وقتی طور پر آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی بنا دیا جاتا ہے لیکن انہیں کبھی ختم نہیں کیا جاتا، چاہے انہوں نے ایک قبر میں سو، ڈیڑھ سو افراد بھی دفن کیے ہوئے ہوں۔ ان کے خلاف کمیشن بھی بنے ہیں، انکوائریاں بھی ہوئی ہیں، انہوں نے سرکاری ملازمین اور سکیورٹی فورسز کو جو نقصان پہنچایا ہے، اسے نظر انداز کرتے ہوئے ان کو کچھ نہیں کہا جاتا۔
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ان گروہوں کو صرف اس لئے رکھا جاتا ہے کہ بوقتِ ضرورت ان سے کام حاصل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اگر ریاست سمجھتی ہے کہ ایسے لوگوں کو آگے لا کر وہ بلوچستان میں امن و امان لائیں گے تو ایسا نہیں ہوگا۔ وہ نفرت پھیلا رہے ہیں۔ ان کو کوئی نہیں جانتا، ان کی حیثیت سے ہر کوئی واقف ہے لیکن جو کندھا وہ استعمال کر رہے ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ وہ ریاست کا کندھا استعمال کر رہے ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ جب اس طرح کی کارروائیوں کے لئے ریاست کا کندھا استعمال ہوتا ہے تو لوگوں کی نفرت ان جرائم پیشہ افراد سے زیادہ اس کا رخ کرتی ہے جس کا کندھا استعمال ہو رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ ریاست کا نام استعمال کرتے ہیں، ان کی جیبوں میں ریاست کے کارڈ رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں نے اپنی گاڑیوں پر سبز ہلالی پرچم لگایا ہوا ہے، تو جب بھی وہ کسی کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، اغوا برائے تاوان کی رقم وصول کرتے ہیں تو پاکستان کے جھنڈے تلے کرتے ہیں۔
اس سے قبل اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران بھی کہا تھا کہ پاکستان کا جھنڈا لگا کر کچھ بھی کر لو، سب جائز ہو جاتا ہے۔ انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا جھنڈا آپ لگائیں، کسی چیک پوسٹ پہ آپ کو نہیں روکا جائے گا، پاکستان کا جھنڈا لگا کر آپ کسی کا قتل کر کے واپس جائیں، راستے میں آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔ پاکستان کا جھنڈا کوئی لائسنس ٹو کل نہیں ہے۔ یہ جھنڈا آپ نے اس لئے بنایا ہوا ہے کہ یہ لوگوں کو اکٹھا کرے، امن و امان لائے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس جھنڈے کے ساتھ تو آپ بھی کھڑے ہیں تو اختر مینگل کا جواب تھا کہ ہم تو کھڑے ہیں لیکن ہمیں کھڑا ہونے نہیں دیا جا رہا۔ ہم نے پاکستان کے جھنڈے کو غلط استعمال نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ بس آپ پاکستان کا جھنڈا ہاتھ میں رکھیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ جنہوں نے پاکستان کی سیاست کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، جنہوں نے ہر دورِ حکومت میں کرپشن کی ہے، لیکن وہ پاکستان کے جھنڈے کے سامنے جب بیٹھ کر سلیوٹ مارتے ہیں تو پھر چاہے ان کے نیب کے کیسز ہوں یا ریپ کے کیسز ہوں، سب معاف ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تو اس جھنڈے کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم نے تو اس کا غلط استعمال نہیں کیا۔ ہم ان کو راہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اس جھنڈے کو موزوں جگہ پر لگائیں، ہر جرائم پیشہ شخص کے ہاتھ میں اگر آپ نے یہ جھنڈا دے دیا تو جھنڈے کی وہ اہمیت اور عزت نہیں رہتی۔
واضح رہے کہ سردار اختر مینگل نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ ایک ایسے موقع پر کیا ہے کہ جب حکومت بجٹ پیش کر چکی ہے اور اس کو پاس کروانے کے لئے اسے کم از کم اسمبلی کے 172 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل حکومت کے ارکان کی تعداد 186 تھی لیکن ایک رکن کے انتقال اور بی این پی مینگل کے اتحاد سے علیحدہ ہونے کے باعث اب یہ تعداد 181 ہو چکی ہے۔
ماضی میں مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم حکومت سے نالاں رہی ہیں۔ نیا دور سے منسلک سینیئر صحافی مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں یا سندھ کے جی ڈی اے جیسے اتحاد ایک سبز بتی کے منتظر ہیں، جونہی انہیں وہ بتی سبز نظر آئی، یہ حکومت گر جائے گی، لیکن یہ تجربہ کار لوگ ہیں، پیلی لائٹ پر روڈ کراس نہیں کریں گے۔