حال ہی میں کراچی میں ہونے والے میئر کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار مرتضیٰ وہاب نے میدان مار لیا ہے۔ انہوں نے اپنے مدمقابل جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مشترکہ امیدوار حافظ نعیم الرحمٰن کو ہرایا ہے۔ اگرچہ عددی اکثریت جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے پاس زیادہ تھی مگر اس کے باوجود مرتضیٰ وہاب جیت گئے۔ سوشل میڈیا پر بے شمار ویڈیو کلپس گردش کرتے رہے جن میں تحریک انصاف کے کامیاب ہونے والے چیئرمینوں کو باوردی اہلکار پولنگ ہال میں جانے سے زبردستی روک رہے تھے۔ اب جماعت اسلامی نے اس پر باقاعدہ احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان کو احتجاج نہ کرنے اور مذاکرات کا مشورہ دینے والے سراج الحق اب خود احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
کراچی ایک بد نصیب شہر ہے جو سیاسی جماعتوں کے روایتی تضادات اور تعصبات کا شکار ہوتا رہا ہے۔ اس کی مکمل روداد زاہد چوہدری اور حسن جعفر زیدی نے اپنی کتاب سندھ (اردو اور سندھی بولنے والوں کے تضادات) میں لکھی ہے۔ کراچی میں ہمیشہ لسانی بنیادوں پر سیاست ہوتی رہی ہے جس کا خمیازہ شہر کو بھگتنا پڑا ہے۔ شہری علاقوں سے ہمیشہ اردو بولنے والوں کی جماعت جیت جاتی تھی مگر صوبے پر سندھی بولنے والوں کی حکومت ہوتی تھی جس کی وجہ سے کبھی شہر پر توجہ نہیں دی گئی اور پاکستان کا سب سے بڑا اور جدید شہر مسائل کا گڑھ بن گیا۔
میں نے اپنے صحافتی کیریئر میں صرف ایک کراچی شہر کو ترقی کرتے دیکھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل پرویز مشرف صدر تھے، ڈاکٹر عشرت العباد گورنر سندھ اور مصطفیٰ کمال کراچی کے ناظم تھے۔ اگرچہ صوبے کے وزیر اعلیٰ اس وقت بھی سندھی زبان بولنے والے تھے مگر پرویز مشرف، ڈاکٹر عشرت العباد اور مصطفیٰ کمال کی تکون نے حقیقی معنوں میں کراچی کی خدمت کی تھی۔ اس کے بعد پھر چراغ مدھم پڑ گئے۔
2018 کے الیکشن کے بعد کراچی شہر میں تحریک انصاف کا ظہور ہوا۔ پی ٹی آئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی اکثریتی جماعت بن کر ابھری۔ عمران خان خود کراچی سے سیٹ جیت گئے مگر افسوس انہوں نے بھی کراچی کو فراموش کر دیا۔ اگرچہ اس دوران ایک بہت بڑا کام کراچی سرکل ریلوے کی بحالی کی صورت میں ہوا جس کا کریڈٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس گلزار احمد اور تحریک انصاف کی حکومت کو جاتا ہے۔
سرکل ریلوے کی 35 سال بعد اب بحالی ممکن ہوئی ہے جس کا ایک فیز مکمل بحال ہو چکا ہے اور دوسرے پر کام جاری ہے۔ اس منصوبے کا آغاز تحریک انصاف کے دور میں ہوا تھا مگر جس طرح کراچی کے عوام نے تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا تھا، جواب میں عمران اسماعیل، علی زیدی، فیصل واؤڈا اور محمود مولوی جیسے تحریک انصاف کے رہنماؤں نے نا صرف اپنی سیاسی جماعت کے ساتھ بے وفائی کی بلکہ کراچی شہر کے ساتھ بھی بے اعتنائی برتی۔
اب مرتضیٰ وہاب کراچی کے میئر بن چکے ہیں جو اچھی ساکھ کے حامل پڑھے لکھے اور روشن خیال جوان ہیں۔ ان کے والد وہاب صدیقی صحافی تھے۔ والدہ فوزیہ وہاب رکن قومی اسمبلی تھیں اور نظریاتی سیاسی کارکن تھیں۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کی جڑیں کراچی شہر میں ہیں اور ان سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں کہ اس شہر کی عظمت رفتہ کو بحال کریں کیونکہ ماضی میں جس شہر میں ٹرام چلتی تھی اب وہاں کی سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں۔
مرتضیٰ وہاب کی تقریب حلف برداری میں وزیر خارجہ جو چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بھی ہیں، انہوں نے کہا کہ اب کراچی میری ذمہ داری ہے۔ 5 سال بعد کراچی کی شہری حکومت کی کارکردگی پر سوال مجھ سے کیا جائے، جواب میں دوں گا۔ اگر دیکھا جائے تو بلاول بھٹو زرداری کی یہ بات ایک خوشگوار تبدیلی ہے کیونکہ پچھلے 15 سالوں سے ان کی جماعت سندھ پر حکومت کر رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی کو ہمیشہ روایتی تضادات کی بھینٹ چڑھایا ہے اور آصف علی زرداری نے کبھی بھی کراچی کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور مرتضیٰ وہاب کی جوڑی کراچی کے لئے کیا کرتی ہے۔ آغاز تو خوشگوار لگتا ہے انجام خدا جانے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔