پانچ روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان سٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کی قسط فراہم کی جائے گی۔
نیتھن پورٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف کی ایک ٹیم نے 14 سے 19 مارچ تک اسلام آباد کا دورہ کیا جس کا مقصد آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی پروگرام کے دوسرے جائزے پر بات چیت کرنا تھا۔ پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات کے اختتام پر آئی ایم ایف ٹیم کے سربراہ نے یہ اعلامیہ جاری کیا۔
بدھ کو عالمی مالیاتی ادارے کے واشنگٹن آفس سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالرز جاری کیے جائیں گے۔ یہ معاہدہ ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہوگا۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ قسط ملتے ہی 3 ارب ڈالر کا سٹینڈ بائی ارینجمنٹ ختم ہو جائے گا۔ اعلامیہ میں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے معاشی اقدامات کی تعریف بھی کی گئی ہے۔
اعلامیہ میں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے معاشی اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان اور نگران حکومت کی جانب سے حالیہ مہینوں میں آئی ایم ایف شرائط پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا جبکہ نئی حکومت نے بھی پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کے لیے ان پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ قلیل مدتی پروگرام کو ملک کی معیشت کے نہایت اہم قرار دیا ہے۔ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو جائزہ وار اہداف اور اقساط ملنے سے معیشت کو استحکام ملا ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ بہتر حکمت عملی، کثیرالجہتی اور دوطرفہ شراکت داروں سے رقوم کی بحالی سے ترقی اور اعتماد کی بحالی جاری ہے۔
پاکستان میں نئی کابینہ بننے کے فوری بعد دوسرے جائزہ مشن کی تکمیل پر آئی ایم ایف ٹیم نے امید ظاہر کی ہے کہ مالیاتی بورڈ اپریل کے آخر میں اس جائزے پر غور کرے گا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پہلےجائزے کے بعد کے مہینوں میں پاکستان کی معاشی اور مالی حالت بہتر ہوئی۔ بااعتماد پالیسی مینجمنٹ کی پشت پر ترقی اور اعتماد کی بحالی جاری ہے تاہم رواں برس شرح نمو کمزور اور افراط زر ہدف سے کافی زیادہ رہنے کی توقع ہے۔ پاکستانی کی کمزور معیشت اور اس سے متعلقہ مسائل سے نمٹنے کے لیے جاری پالیسی اور اصلاحاتی کوششوں کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کے اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کی نئی حکومت ان پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے جو موجودہ ایس بی اے کے تحت اس سال کے باقی ماندہ عرصے میں معاشی اور مالی استحکام کو قائم کرنے کے لیے شروع کی گئی ہیں۔ پاکستانی حکام مالی سال 2024 کے جنرل گورنمنٹ پرائمری بیلنس کا ہدف 401 ارب روپے (جی ڈی پی کا 0.4 فیصد) تک لے جانے کے لیے پرعزم ہیں۔ جس کے لیے وہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی مزید کوششیں اور بجلی اور گیس کے نرخوں میں ایڈجسٹمنٹ کے بروقت نفاذ کو جاری رکھیں گے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ پروگریسو ٹیرف کے نظام کے ذریعے رواں برس گردشی قرضے میں مزید اضافے سے بچا جا سکتا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان مہنگائی کو کم کرنے اور غیرملکی زرمبادلہ میں لچک اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک محتاط مانیٹری پالیسی کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
اس حوالے سے بات چیت کا آغاز آئندہ مہینوں میں کیا جائے گا۔ جس میں ترقی و سماجی بہتری کے اقدامات کے لیے ٹیکس نیٹ میں اضافے کے ذریعے پبلک فنانس کو مستحکم کرنے، لاگت میں کمی لانے والی اصلاحات کو تیز کر کے توانائی کے شعبے کی عملداری کو بحال کرنے، افراط زر کی واپسی، مذکورہ بالا اقدامات کے ذریعے نجی شعبے کی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور سرمایہ کاری میں اضافے سمیت دیگر معاملات پر بات کی جائے گی۔
دوسری جانب وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی بھی امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے اہم ملاقات ہوئی ہے جس میں ملک کے ٹیکس انتظامیہ اور سرمایہ کاری کے ماحول میں بہتری سمیت پاکستان کے اصلاحاتی اہداف کو پورا کرنے کے لیے مزید امریکی تعاون اور حمایت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
امریکی سفیر بلوم نے آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے موجودہ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کو مکمل کرنے کے لیے امریکی حکومت کی حمایت کی یقین دہانی کروائی امریکی سفیر بلوم نے باہمی دلچسپی کے شعبوں میں امریکا پاکستان اقتصادی تعاون کو مزید وسعت دینے کے عزم پر زور دیا۔