Get Alerts

'جنرل باجوہ اور فیض کو پارلیمنٹ بلانے کا کہا تو دھمکیاں دی گئیں'

جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اس معاملے پر قومی اسمبلی میں ہمیں بریفنگ دی تھی۔ عمران خان اس وقت وزیر اعظم تھے، یہ سب کچھ انہی کی ہدایت پر ہوا تھا۔ اس ایک واقعے کے علاوہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو باقاعدہ طور پر کبھی پاکستان نہیں لایا گیا۔

'جنرل باجوہ اور فیض کو پارلیمنٹ بلانے کا کہا تو دھمکیاں دی گئیں'

سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں کو افغانستان سے واپس بلا کر پاکستان میں بسایا گیا، عمران خان نے ان کے حق میں پارلیمنٹ میں تقاریر بھی کی تھیں۔ میں نے جب سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو پارلیمنٹ میں بلانے کی بات کی تو مجھے دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں کہ ان کے بارے میں بات نہ کریں۔ یہ انکشاف کیا ہے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے۔

نجی نیوز چینل کے پروگرام میں اینکر فہد حسین سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا کہ 2022 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں کالعدم ٹی ٹی پی کے 4 سے 5 ہزار لوگ افغانستان سے پاکستان لائے گئے تھے، وقت گزرنے کے ساتھ اس فیصلے کے بہت منفی نتائج سامنے آئے۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے اس معاملے سے متعلق قومی اسمبلی میں ہمیں بریفنگ دی تھی۔ عمران خان اس وقت وزیر اعظم تھے، یہ سب کچھ انہی کی ہدایت پر ہوا تھا۔ اس ایک واقعے کے علاوہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو باقاعدہ طور پر کبھی پاکستان نہیں لایا گیا۔ اس وقت ٹی ٹی پی کے جو 4، 5 ہزار بندے پاکستان لائے گئے تھے جنرل باجوہ، جنرل فیض اور عمران خان ان کی ذمہ داری لیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان عسکریت پسندوں کو پاکستان لانے کی ذمہ داری کوئی بھی نہیں لے رہا۔ افغانستان سے آنے والے وہ لوگ اس وقت کہاں ہیں، کیا وہ لوگ ہمارے معاشرے میں گھل مل گئے ہیں؟ جب میں وزیر دفاع تھا تو میں افغانستان گیا اور ان سے درخواست کی کہ انہیں لگام ڈالیں۔ ہم نے افغان حکومت کو ثبوت بھی دیے۔ عمران خان نے پارلیمنٹ میں ان عسکریت پسندوں کے حق میں بیان دیا۔ اس پر میں نے سخت مؤقف اختیار کیا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو پارلیمنٹ میں بلایا جانا چاہیے تاکہ وہ اس معاملے پر وضاحت دیں۔ اس پر مجھے دھمکی آمیز پیغام دیا گیا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے بارے میں ایسی گفتگو بند کرو۔

اینکر فہد حسین نے اس پر سوال کیا کہ آپ کو کن کی جانب سے پیغام آیا؟ جس پر خواجہ آصف نے جواب دیا کہ جس کسی کا بھی پیغام آیا لیکن انہوں نے کہا کہ اس قسم کی گفتگو بند کرو کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو پارلیمنٹ میں بلایا جائے یا وہ کوئی وضاحت دیں۔ یہ ایک دھمکی آمیز پیغام تھا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اینکر نے سوال کیا تو کیا اب آپ اپنے مؤقف پر نظرثانی کریں گے؟ جس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ میں سچ بول رہا ہوں۔ میں نے کوئی غلط بات نہیں کی کہ اس پر نظرثانی کروں۔ جب جنرل فیض اور جنرل باجوہ قومی اسمبلی میں آئے تھے اور اس معاملے کی وکالت کی تھی، اس سے متعلق سب کو علم ہے۔ یہ لوگ کیوں جواب نہیں دیتے کہ انہوں نے قوم کے ساتھ زیادتی کی؟ ملک آج جن مسائل سے دوچار ہے اس کے ذمہ دار قوم کو جواب دیں۔

خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ جن لوگوں نے مجھے دھمکی دی تھی کہ تم ہمارے متعلق گفتگو نہ کرو، وہ نہیں افورڈ کر سکیں گے۔ اس سے پہلے بھی مجھے ٹیلی فون پر دھمکی دی گئی تھی۔ مارتے بھی ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ روتے کیوں ہو۔ میں سیاسی ورکر ہوں۔ میں نے بہت کچھ برداشت کیا ہے اور بہت کچھ برداشت کر سکتا ہوں۔ شیشے کے گھر میں رہ کر دوسروں پر پتھر نہیں پھینکے جاتے۔

نواز شریف کے بیرون ملک جانے سے متعلق سوال پر خواجہ آصف نے جواب دیا کہ نواز شریف کا لندن جانا معمول کی بات ہے، وہ واپس آ جائیں گے۔ تمام سیاسی معاملات پر قائد نواز شریف سے مشاورت ہوتی ہے، حتمی فیصلہ انہی کا ہوتا ہے۔ ان کا چوتھی بار وزیراعظم بننا خارج از امکان نہیں۔ عام انتخابات اور سینیٹ امیدواروں کو بھی ٹکٹیں نواز شریف کی منظوری سے دی گئیں۔ جنہوں نے نواز شریف کو باہر بھیجا تھا انہیں لگتا تھا کہ نواز شریف کی کبھی واپسی نہیں ہو گی۔ لیکن پھر سب نے دیکھا کہ نواز شریف واپس بھی آئے اور مستقبل میں وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں۔

چند روز قبل میڈیا سے گفتگو میں خواجہ آصف نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں فوج کے بہادر سپوتوں کی شہادت کا مذاق اڑانے پر سخت ردعمل دیا تھا کہ شہدا کے خلاف ایک سیاسی جماعت نے سوشل میڈیا پر مہم چلائی اور ان کی شہادتوں کا مذاق اڑایا گیا، وطن کے ساتھ اس سے بڑی ملک دشمنی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ شہدا کا مذاق اڑانے سے زیادہ گھٹیا بات کوئی نہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ اکاؤنٹ بھارت، یورپ اور امریکہ سے چلائے جا رہے ہیں اور ان کے پاکستان میں رابطے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن میں اختلافات پر شہدا کو شامل کرنا انتہائی گھٹیا عمل ہے۔ یہ پارٹی اپنی شناخت کھو چکی ہے اور آج یہ بے نامی پارٹی ہے۔ کون اس پارٹی کو چلا رہا ہے اور کون ملک سے باہر بیٹھ کر گالیاں دے رہا ہے؟ یہ لوگ آئی ایم ایف اور امریکی کانگریس کے رہنماؤں کو خط لکھتے ہیں کہ پاکستان کو قرض نہ دیا جائے۔ چند روز قبل اسمبلی میں ان لوگوں نے غزہ سے متعلق قرارداد کی بھی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے ماضی میں بھی اختلافات رہے ہیں لیکن آج تک کسی جماعت نے ایسا نہیں کیا جو یہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت حد پار کرے گی تو اس کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔