انڈا کھانے والے آسٹریلوی سینیٹر انتخابات میں ناکام

آسٹریلیا میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات میں کوئنزلینڈ سے تعلق رکھنے والے متنازع سینیٹر فریسر ایننگ اپنی سینیٹ کی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

آسٹریلوی میڈیا کے مطابق، نوجوان سے انڈا کھانے سے عالمی سطح پر مشہور ہونے والے دائیں بازو کے نظریات کے حامل سینیٹر پارلیمان میں اپنی نشست محفوظ رکھنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

آسٹریلوی براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن نے ان کی شکست کا اعلان کچھ ان الفاظ میں کیا،’’ فریسر ایننگ وہاں واپس چلے گئے ہیں جہاں سے وہ آئے تھے۔ وہ اب پارلیمان میں نظر نہیں آئیں گے۔‘‘

واضح رہے کہ فریسر ایننگ نے یہ نشست محض 19 ووٹ زیادہ لے کر حاصل کی تھی جب ون نیشن پارٹی کے امیدوار میلکوم رابرٹ دہری شہریت کی بنا پر نااہل قرار دے دیے گئے تھے۔

تاہم حالیہ انتخابات میں فریسر ایننگ کی سیاسی جماعت کنزرویٹو نیشنل پارٹی کے دوسرے امیدوار نے واضح طور پر زیادہ ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جس کے باعث فریسر ایننگ اپنی نشست بچانے میں ناکام رہے۔



واضح رہے کہ دائیں بازو کے نظریات کے حامل سینیٹر نے اس وقت میڈیا کی توجہ حاصل کی تھی جب انہوں نے رواں برس مارچ میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں سفید فام دہشت گردوں کے حملے میں 50 مسلمانوں کی ہلاکت کی ذمہ داری مسلمانوں پر ہی عائد کر ڈالی تھی۔ ان کے اس بیان کی ناصرف عالمی سطح پر مذمت کی گئی تھی بلکہ چند روز بعد ہی ایک نوجوان نے غصے میں انہیں انڈا دے مارا تھا جو بعد میں عالمی سطح پر ’ایگ بوائے‘ کے نام سے معروف ہوا۔

ایک اور بیان میں فریسر ایننگ نے اسلامی ملکوں کے شہریوں کی آسٹریلیا امیگریشن پر پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کیا تھا اور اسے ’حتمی حل‘ قرار دیا تھا، یہ مخصوص اصطلاح نازی جرمنی کے عہد میں یہودیوں کی منظم نسل کشی سے منسوب کی جاتی ہے۔

فریسر ایننگ ایک اور تنازع کا شکار اس وقت ہوئے جب وہ میلبورن میں دائیں بازو کی ایک ریلی میں شریک ہوئے اور نازی انداز میں سیلوٹ کرتے ہوئے نظر آئے۔