کراچی شہر کے ایک نچلے متوسط طبقے کے علاقے جعفریہ میں 80 سالہ خاتون برقِ جہاں چلنے پھرنے سے معذور اپنے چھوٹے سے مکان کے اندر ایک چارپائی پر لیٹی اپنے بیٹے کو یاد کر رہی ہیں۔
برقِ جہاں کا 52 سالہ بیٹا قریب چھ سال سے لاپتہ ہے۔ 21 جولائی 2017ء کی رات رینجرز اہلکار ان کے گھر کا دروازہ پھلانگ کے اس وقت داخل ہوئے جب ان کا خاندان گہری نیند سو رہا تھا۔
اندر داخل ہونے کے بعد اظہر حسین کے چھوٹے بھائی سے پوچھ گچھ شروع ہوئی۔ اتنے میں باہر سے ایک سادہ لباس اہلکار نے پیغام بھجوایا کہ ہمیں یہ شخص مطلوب نہیں بلکہ کسی اور کی تلاش ہے۔
اظہر حسین اس وقت گھر کے اوپر والے حصے میں آرام کر رہے تھے اور کچھ دیر قبل ہی کراچی کارڈیو ہسپتال سے واپس آئے تھے کیونکہ پورے دن دل کی تکلیف میں مبتلا رہے تھے۔
رینجرز اہلکار نے اظہر حسین کو نیچے اتارا اور ان سے کپڑے بدلنے اور اپنی دوائیاں رکھنے کا حکم صادر کیا۔ اظہر حسین کی بہن شاہین بانو نے بتایا کہ جب رینجرز والے ان کے بھائی کو لے جانے لگے تو ان کی والدہ نے گڑگڑا کر فریاد کی کہ وہ ان کو بھی لے چلیں اور ان کے سامنے تفتیش کرلیں جس پر جواب ملا کہ وہ فکر نہ کریں اور اظہر کو اہلکار کچھ ہی دیر میں واپس چھوڑ جائیں گے۔ اس واقعے کو بھی سالوں گزر گئے لیکن اظہر حسین تاحال بازیاب ہوئے نہ انہیں عدالت میں پیش کیا گیا۔
برقِ جہاں ایک عرصے سے شدید علیل ہیں، ان کے مطابق اظہر حسین ان کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ انہوں نے اپنی والدہ کی تیمار داری کے لئے ساری عمر شادی تک نہیں کی کہ کہیں اس کام میں کوئی چونک نہ ہو جائے۔ ان کی والدہ نے نیا دور میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ: ’جیسے آج میں تڑپتی ہوں ویسے وہ لوگ بھی تڑپیں گے جنہوں نے اتنے سالوں سے میرے بیٹے کو لاپتہ کر رکھا ہے۔‘
ان کا غم صرف یہ نہیں ہے کہ ایک بیٹا لاپتہ ہے بلکہ وہ اس صدمے سے بھی دوچار ہیں کہ 90ء کی دہائی میں جب شیعہ حضرات کی ٹارگٹ کلنگ اپنے زوروں پر تھی تو ان کے بڑے بیٹے کو گولی لگی جس کی وجہ سے وہ کچھ عرصے علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ ’ایک بیٹا دہشتگردوں نے چھین لیا دوسرے بیٹے کو رینجرز لے گئے۔ یہ کیسی قوم ہے کہ ان کے دل پتھر کے ہو گئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اظہر حسین کا قصور شاید یہ تھا کہ وہ ان خانوادوں کی کفالت کیا کرتے تھے جو مسائل سے دوچار ہوں۔ غریبوں کے لئے چندہ جمع کرکے گھر گھر راشن پہچانا اور لاوارث لڑکیوں کی شادی کرنا ان کا جیسے نصب العین تھا۔ وہ الیکٹریشن کا کام کیا کرتے تھے اور پاک فوج کے دفاتر میں بھی اپنے فرائض سرانجام دے چکے تھے۔ جس دن علاقے میں امام حسین کے غم میں جلوس نکالا جاتا، اظہر ان راستوں کو گھنٹے کھڑے ہو کر صاف کیا کرتے، امام بارگاہ میں بھی صفائی کا خاص خیال رکھا کرتے تھے۔ انہی کچھ باتوں کے سبب علاقہ مکینوں نے ان کا نام اظہر میجر رکھ دیا تھا۔ ان کی عرفیت میں ان کے نیکی کے کاموں کا بہت دخل تھا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ایک عرصے سے جاری ہے اور ہر رنگ، نسل ومذہبی فرقے کے افراد اس مشکل سے دوچار ہیں۔ شیعہ اکابرین کے مطابق صرف کراچی سے ہی ایک درجن سے زائد شیعہ افراد لاپتہ ہیں جبکہ پورے پاکستان میں ان کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ کئی جوان ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایران سے عسکری مشق کرنے یا ملک شام میں داعش سے جنگ کرنے گئے تھے اور واپس آنے پر گرفتار کر لئے گئے۔ تاہم، اظہر حسین اور دیگر کئی شیعہ افراد کبھی ایران یا شام گئے ہی نہیں۔ شاہین بانو کا کہنا ہے کہ اظہر کا پاسپورٹ ہی بنا ہوا نہیں تھا جو وہ کسی دوسرے ملک جاتے۔
برقِ جہاں نے اپنے بیٹے اور شاہین بانو نے اپنے بھائی کے لئے ہر دروازے ہر دستک دی، پٹیشن بھی دائر کی، جبکہ رینجرز اور فوج کو خط بھی لکھے لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ ایک بار رینجرز کے دفتر نے انہیں یہ کہہ کر بھی ٹال دیا کہ کو جو افراد اظہر کو گھر سے اٹھا کر لے کر گئے وہ رینجرز اہلکار تھے ہی نہیں۔
شاہین سوال پوچھتی ہیں کہ: ’کیا رینجرز کی وردی اس قدر سستی ہو چکی ہے کہ کچھ لوگ وردی پہن کر آتے ہیں، چادر، چار دیواری کو پامال کرتے ہیں اور ہماری بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور کوئی ادارہ پوچھنے والا تک نہیں؟‘۔
اظہر کی بہن کا کہنا تھا کہ انہیں سب سے زیادہ افواجِ پاکستان سے امید تھی کہ وہ اس ظلم کے خلاف ان کے مددگار بنیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور ان کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب اظہر کو اٹھایا گیا تو اس وقت نواز شریف صاحب کی حکومت تھی، اور حکومت تبدیل ہو کر جب عمران خان کی آئی تو تب بھی کچھ نہیں بدلا اور گمشدہ افراد واپس نہیں لوٹے۔ ’عمران خان سٹیج پر چڑھ کر کہا کرتے تھے کہ میرے حکومت میں کوئی بندہ بھی لاپتہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کتنے سال حکومت کی اور اس کے باوجود بھی وہ ہمارے بچے واپس نہیں لوٹا سکے۔ اب ایک بار پھر نواز شریف کی جماعت کی حکومت آچکی ہے لیکن جب کرسیوں کی فکر لاحق ہو تو ہم مجبور لوگوں کی کون سنے گا۔‘
خیال رہے کہ بہت سے جبری طور پر گمشدہ افراد کے والدین اپنے پیاروں کی واپسی کا انتظار کرتے کرتے اس جہانِ فانی سے کوچ بھی کرگئے جن میں لاپتہ فرد علی مہدی کے والد اور آفتاب نقوی کی والدہ شامل ہیں۔