سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ جب کوئی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ منتخب ہو جاتا ہے تو اسے صرف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سے ہی اقتدار سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ اگر 10، 20 اراکین اسمبلی ڈی سیٹ ہو جائیں تو قائد ایوان کا دوبارہ سے الیکشن ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک صورت ہے کہ گورنر اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیں یا حمزہ شہباز کیخلاف عدم اعتماد آ جائے۔ پی ٹی آئی ری الیکشن کی جو تھیوری پیش کر رہی ہے، وہ آئین کی کتاب میں کہیں درج نہیں، تاہم نظریہ اخلاقیات کی بنیاد پر ایسا ہو جائے تو اس کا مجھے علم نہیں ہے کیونکہ ہماری عدالتیں نظریہ ضرورت سے نظریہ اخلاقیات پر پہنچ چکی ہیں۔ یہ بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
مزمل سہروردی نے اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس وقت پنجاب کا کوئی گورنر نہیں جبکہ چودھری پرویز الٰہی یہ عہدہ لینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اگر وہ ایسا کرنے پر تیار ہو جائیں تو اگلے دن ووٹنگ ہو جائے گی لیکن اس صورت میں ان کی سپیکرشپ ہاتھ سے چلی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کی کرسی سے ہٹانے کا طریقہ ماورائے آئین ہی ہے۔ ان کو کسی اور طریقے سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔ اگر فوری الیکشن کرانے ہیں تو پھر پنجاب ن لیگ سے چھیننا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ صرف اسلام آباد کی حکومت رکھ کر مسلم لیگ کو کوئی فائدہ نہیں، پنجاب ہاتھ سے نکل گیا تو ن لیگ الیکشن میں چلے جائے گی۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مزمل سہروردی نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں حمزہ شہباز شریف کے کیس کی سماعت 25 مئی کو ہوگی جبلہ عمران خان نے بھی اپنے لانگ مارچ کی تاریخ 25 سے 29 مئی تک کی دی ہے۔ اگر حمزہ شہباز کا فیصلہ آ گیا تو عمران خان واک اوور کر جائیں گے لیکن اگر حمزہ کی وزارت اعلیٰ برقرار رہتی ہے تو اس صورت میں اسلام آباد مارچ کی کامیابی کے کتنے چانسز ہیں؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔