فیض ادبی میلے کے موقع پر نوجوانوں کی طرف سے یونیورسٹی طلبہ کے حقوق کے لیے نعرے بازی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں کالی جیکٹ پہنےعروج اورنگزیب بڑے جوش و جذبے سے یہ نعرہ لگواتی نظر آتی ہیں:
''سرفروشی کی تمنا اب میرے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘‘
https://twitter.com/ShirazHassan/status/1196102270317928450?s=20
پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو کی سرگرم کارکن عروج اورنگزیب پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طالبہ ہیں اور ایک عرصے سے لاہور کے سنگت تھیٹر گروپ اور اسٹڈی سرکل سے وابستہ ہیں۔
”نیادور“ نے ناقدین کے اعتراضات کے علاوہ طلبہ کی تحریک کے حوالے سے عروج اورنگزیب اور محسن ابدالی سے خصوصی گفتگو کی، ایک اعتراض پر بات کرتے ہوئے عروج اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ”لیڈر جیکٹ پہننا کوئی جرم نہیں، مجھے خوشی ہے کہ لوگوں کو میری جیکٹ مہنگی لگ رہی ہے تاہم ایسا نہیں ہے، یہ جیکٹ پوری سردیاں چلے گی۔‘‘
یہ بھی پڑھیں:طلبہ یکجہتی مارچ: امید کی کرن؟
عروج کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”ہم سے نظریات کے بارے میں پوچھیں، سوشل میڈیا پر صرف ایک پہلو ہی دکھایا گیا، بدقسمتی سے عوام بھی اسے ہی سچ سمجھتے ہیں۔“
’اپنی بات سمجھانے کے لیے چیخنا پڑتا ہے‘
عروج اورنگزیب کا کہنا تھا کہ” طلبہ یکجہتی مارچ پر بات کریں، جیکٹ کیا ہے؟ جیکٹ کیسے لبرل ہے، ہمارے مطالبات پر بات کریں، پدر شاہی نظام میں عورتوں کے لیے جگہ نہیں ہے، چیخنا پڑتا ہے، نہیں تو آپ کی آواز کوئی نہیں سنتا۔“
’یونیز پر پابندی سے طلبہ کا استحصال بڑھا‘
محسن ابدالی کا کہنا تھا کہ ”آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی سٹوڈنٹس یونینز ہیں، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو بھی آکسفورڈ یونیورسٹی کی طلبہ تنظیم کے ساتھ وابستہ رہے، ایوب خان کے خلاف تحریک میں طلبہ سب سے آگے تھے۔ سٹوڈنٹ یونینز پر پابندیوں کے بعد ایک خاص تنظیم کو نوازا گیا، جس کی وجہ سے تشدد آیا۔“ ان کا کہنا تھا کہ ”تعلیم کو سیاست سے جدا نہیں کیا جاسکتا، ایچ ای سی کے بجٹ میں کٹوتی ہوئی، شاید بہت ہی کم طلبہ کو اس بابت معلوم ہو گا۔ آواز اٹھانا تو دور کی بات ہے، ہمارے تعلیمی ادارے سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ دینے کے آوٹ لیٹس ہیں۔“
’گورے منیَ گورے بنا کر چلے گئے‘
عروج اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ”اعتراض لگایا جاتا ہے کہ طلبہ کا کام پڑھنا ہے تو ہم بھی تو صرف پڑھنے کی آزادی مانگ رہے ہیں، ہمیں نا بتایا جائے کہ کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں،ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے دیں، ہم پڑھنے کے لیے ہی یونیز کا مطالبہ کر رہے ہیں۔“
ایک سوال کے جواب میں عروج نے کہا ”ریاست یہ نہ بتائے کہ کورس میں کیا شامل ہوگا اور کیا نہیں؟ تاریخ کونسی پڑھائی جائے گی؟ ان حالات میں تخلیقی سوچ کیسے پیدا ہو گی، ہمیں 1947 سے پہلے کیوں نہیں جانے دیا جاتا، 1947 سے پہلے جائیں گے تو ہی پتہ چلے گا کہ گوروں نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے، اب تک تقسیم کرو اور راج کرو کا نظام چل رہا ہے، پہلے گورے تھے اب گورے اپنے پیچھے منیِ گورے بنا کر چلے گئے ہیں۔“
طلبہ یکجہتی مارچ کیا ہے؟
عروج اورنگزیب کے مطابق” آج کل تعلیمی اداروں میں بے چینی کی ایک لہر ہے اور طلبہ تحریک سے وابستہ تنظیمیں 29 نومبر کو ملک گیر احتجاج کے لیے اکھٹی ہو رہی ہیں۔ اس احتجاج کو ’ طلبہ یکجہتی مارچ‘ کا نام دیا گیا ہے۔“
”سرخ ہماری رگوں کے اندر ہے“
عروج اورنگزیب کہتی ہیں کہ ”جو ہم ایشیاء کو سرخ کرنے کی بات کررہے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ہمارے تصور میں اس نظام سے بغاوت ہے، جو ہمیں ختم کردے، جو ہمیں مار دے گا، سرخ رنگ انقلاب کا رنگ ہے اور سرخ عشق کا رنگ بھی ہے، ہم اس سرخ کو تشدد کے ساتھ نہیں زندگی کے ساتھ جوڑتے ہیں، یہ ایک عالمی تصور ہے تاہم اسے ایک خاص سوچ کے تحت عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا ہے۔“ ان کا کہنا تھا کہ ظلم کے نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے، سرخ ایک ایسی زندگی کا پیغام ہے جس میں ہم سارے خوش رہیں۔“
لاہور کے طلبہ میں سرفروشی کی تمنا کیوں جاگی؟
محسن ابدالی نے کہا کہ ”نومبر کو ہونے والےطلبا یکجہتی مارچ کے مطالبات میں یونین سازی، فیصلوں میں نمائندگی کا حق، کیمپس میں ہراس روکنے کے لیے کمیٹیوں کا قیام، چھوٹے علاقوں سے آنے والے طالبعلموں سے امتیازی سلوک کا خاتمہ، اور اس حلف نامے کا خاتمہ شامل ہے جو ہر یونیورسٹی میں داخلے کے وقت ایک طالبِ علم سے پُر کرایا جاتا ہے کہ وہ کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔“
کچھ ناقدین کا کہنا تھا کہ طلبہ یکجہتی مارچ پاکستان کے تمام طالب علموں کی آواز نہیں ہے تو ایسی تمام باتوں کے جواب میں محبہ نامی ایک لڑکی کی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں وہ تمام طالب علموں کے جذبات کی ترجمانی کر رہی ہیں۔
https://twitter.com/aimaMK/status/1196452411717632000?s=20
یاد رہے کہ نعرے بازی کے علاوہ یہ نوجوان اسٹڈی سرکل بھی منعقد کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنے طلبہ یکجہتی مارچ کے پمفلٹ بھی بانٹ رہے ہیں۔