جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج کر دی

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف 10 شکایات جوڈیشل کونسل میں زیر غور ہیں۔ ‏شکایات میں جسٹس مظاہر نقوی پر مالی بے ضابطگیوں، آمدن سے زائد اثاثے بنانے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات عائد ہیں۔ ‏جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو شوکاز نوٹس جاری کر رکھا ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج کر دی

سپریم کورٹ کے جج جسٹس سید مظاہر علی نقوی نے اپنے خلاف آڈیو لیک سکینڈل میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج کر دی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ایڈووکیٹ مخدوم علی خان کے ذریعے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی، جس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو چیلنج کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی درخواست میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کاررروائی ختم کرنے کی استدعاکرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا آئندہ کارروائی کے لیے موصول نوٹس بھی غیر قانونی قرار دیا جائے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں سپریم کورٹ عدلیہ کی آزادی کو بنیادی آئینی ڈھانچے کا جزو قرار دے چکا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ کونسل نے میرے اعتراضات طے کیے بغیر آئندہ کارروائی کا نوٹس بھیجا۔ درخواست میں کہا گیا کہ کونسل نے27اکتوبر کو پریس ریلیز جاری کر کے میرے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ظاہر کیے گئے اثاثے جج کیخلاف کارروائی کی بنیاد نہیں بن سکتے، ٹیکس حکام کی جانب سے جسٹس مظاہر نقوی کی درخواست میں مزید کہا گیا کہ   شوکاز نوٹس کے بارے میں جاری کردہ پریس ریلیز میری رائے لیے بغیر جاری کی گئی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا پریس ریلیز جاری کرنے سے میرا میڈیا ٹرائل ہوا۔ میرے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو بدنیتی پر مشتمل قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔ جوڈیشل کونسل کا جاری کردہ شوکاز نوٹس خلاف قانون قرار دیا جائے۔

واضح رہے کہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت دائر کی گئی اس درخواست کو کھلی عدالت میں سماعت کے لیے مقرر کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ 3 رکنی کمیٹی کرے گی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت 3 رکنی کمیٹی کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ہیں۔ کمیٹی کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔ اثاثوں پر کبھی کوئی نوٹس نہیں آیا،ان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف شروع کی گئی مہم عدلیہ پر حملہ ہے۔

دوسری جانب سپریم جوڈیشل کونسل کے روبرو جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنسز کی سماعت آج ہوگی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس مظاہر نقوی کے نام پر لاہور میں دو جائیدادوں کا مکمل ریکارڈ طلب کیا گیا ہے، گلبرگ تھری لاہور میں پلاٹ نمبر 144 بلاک ایف ون کا مکمل ریکارڈ مانگا گیا۔ لاہور کینٹ میں پلاٹ نمبر 100 سینٹ جانز پارک کا بھی مکمل ریکارڈ طلب کیا گیا ہے۔ کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف شکایت کنندگان کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا ہے۔

دونوں جائیدادوں کی بابت متعلقہ سرکاری محکموں کو ریکارڈ طلبی کے نوٹسز موصول ہوگئے۔ آج بروز پیر کو دوپہر 3 بجے سینئر افسروں کو ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دیا گیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے آئین کے آرٹیکل 210 کے تحت تمام متعلقہ افسروں کو نوٹسز جاری کئے ہیں۔

میاں داؤد ایڈووکیٹ سمیت دیگر نے جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف ریفرنسز دائر کر رکھے ہیں۔ سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل نے 13 نومبر کو نوٹسز جاری کئے تھے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے 10 نومبر کو کونسل کی تشکیل اور ممبران پر اعتراض پر مبنی جواب جمع کرایا تھا۔ جسٹس مظاہر نقوی پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف 10 شکایات جوڈیشل کونسل میں زیر غور ہیں۔ ‏شکایات میں جسٹس مظاہر نقوی پر مالی بے ضابطگیوں، آمدن سے زائد اثاثے بنانے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات عائد ہیں۔ ‏جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو شوکاز نوٹس جاری کر رکھا ہے۔