پی ٹی آئی حکومت نے ڈیڑھ سال میں درجن بھر سے زائد گردوارے اور مندر بحال کر دیے

پی ٹی آئی حکومت نے ڈیڑھ سال میں درجن بھر سے زائد گردوارے اور مندر بحال کر دیے
وطن عزیز کے سبز ہلالی پرچم میں سفید رنگ اس ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا ہے۔ قومی پرچم میں اقلیتوں کو نمائندگی دینے کا مقصد ہر جگہ ہی ہوتا ہے۔ ان کو اس بات کا احساس ہو کہ اس ملک پر ان کا بھی اسی قدر حق ہے جس قدر اکثریت کا ہے۔ تاہم، بات صرف پرچم میں رنگ دینے تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ بھی بہت ضروری ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے واشگاف الفاظ میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان میں تمام اقلیتیں اپنے مندروں، گرجوں اور گردواروں میں جانے کے لئے آزاد ہیں۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد ایک ادارہ متروکہ وقف املاک بورڈ اسی مقصد سے وجود میں آیا تھا کہ ہندوؤں اور سکھوں کے چلے جانے کے بعد جو مندر اور گردوارے ویران ہو گئے ہیں ان کی دیکھ بھال کی جائے، ان کی تزئینن و آرائش کی جائے تاکہ یہاں رہ جانے والے ہندو اور سکھ اپنی مذہبی رسومات آزادی سے ادا کر سکیں۔ ادھر بھارت میں قائم متروکہ وقف املاک بورڈ کا چیئرمین ہمشہ مسلمان کو بنایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہوا۔

وزیراعظم عمران خان نے پہلی بار کسی ہندو کو متروکہ وقف املاک بورڈ کا چیئرمین بنانے کا عندیہ دیا مگر افسوس کہ اقلیتوں کے اندرونی تضادات ابھر کر سامنے آئے اور سکھوں نے ہندو کو متروکہ وقف املاک بورڈ کا چیئرمین بنانے پر احتجاج شروع کر دیا جس کے بعد حکومت نے اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے ایک مسلمان کو ہی متروکہ وقف املاک بورڈ کا چیئرمین بنا دیا۔ یوں اقلیتوں کے اندرونی تضادات کے باعث ایک سنہری موقع گنوا دیا گیا۔



پچھلے ڈیرھ سال میں متروکہ وقف املاک بورڈ نے وہ مندر اور گردوارے جو بند پڑے تھے، ان کی تزئین و آرائش کر کے ان کو فعال کرنے کا اعلان کیا۔ یوں ان کی بحال کا پروگرام شروع کر دیا گیا۔ اب تک 14 مندر اور 18 گردوارے بحال کیے جا چکے ہیں۔ ان کو مکمل طور پر فعال کر دیا گیا ہے اور پوجا پاٹ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اگر مندروں کی بات کی جائے تو ان میں کرشنا مندر روالپنڈی، کٹاس راج مندر چکوال، کرشنا اور بالک رام مندر لاہور، سدھ بیلو مندر سکھر، گرو گرپت مندر حیدرآباد، لال مندر کراچی، بابا بھگت مندر، تان داس مندر، تلسی مندر، گرو رام مندر، یہ سب مندر دادو میں ہیں۔ اس کے علاہ کالی باری مندر مانسہرہ، شوالہ مندر سیالکوٹ بھی ان میں شامل ہیں۔

جو 18 گردوارے بحال کیے گئے ہیں ان میں ننکانہ صاحب کے 7 گردوارے جن میں جنم استھان، پٹیی صاحب، بتو صاحب، بالا صاحب، پنچ صاحب اور کاہترہ صاحب، فاروق آباد میں سچا سودا، ایمن آباد میں روٹری صاحب، لاھور کے ڈیرہ صاحب اور شہید گنج، نارووال کے دربار صاحب، حسن ابدال کا پنجا صاحب، پشاور کے بابا سنگھ بھائی جویا سنگھ، اور سیالکوٹ کا بابا دی باری کو مکمل طور پر پوجا پاٹ کے لہے کھول دیا گیا ہے۔

متروکہ وقف املاک بورڈ کے اس کام کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے۔ اس کو دیر آید درست آید سمجھا جائے اور مزید بہتری کی گنجائش رکھنی چاہیے۔ اگر مذہبی رواداری کے اس عمل کا دائرہ کار پورے سماج میں پھیلایا جائے، ہماری سیاسی جماعتیں کو اپنا فرض بھرپور طریقے سے ادا کریں، اپنے اندر اقلیتی ونگ ختم کر کے اقلیتوں کو کلیدی عہدوں پر فائز کر کے ان کو قومی دھارے میں شامل کریں، تو کوئی وجہ نہیں کہ صورتحال تبدیل نہ ہو، وفاقی کابینہ میں ایک بھی غیر مسلم وزیر نہیں ہے، جو غلط بات ہے۔ دینا کو غلط پیغام جا رہا ہے، جسے کرتار پور بنا کر مثبت پیغام دیا گیا ہے۔



یہاں متروکہ وقف املاک بورڈ کی توجہ گوجرانولہ میں ایک تاریخی مندر کی دلانا چاہتا ہوں۔ اس مندر میں پولیس تھانہ قائم ہے۔ اس کو فوراً ختم کرنا چاہیے۔ 90 کی دہائی میں جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا، اس کے ردعمل میں لاہور میں موجود تاریخی جین مندر کو بھی گرا دیا گیا۔ علم دشمن ہجوم کو یہ نہیں پتہ تھا کہ جین مت ایک الگ مذہب ہے، اس کا ہندو مت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ مندر بالکل تباہ کر دیا گیا۔ اب وہاں ایک اور عمارت بن چکی ہے۔

جین مندر کی یادگار بنانی چاہیے۔ چوک کا نام بابری چوک رکھ دیا گیا ہے۔ اس کا جین مندر چوک نام بحال کیا جائے۔ متروکہ وقف املاک بورڈ کو یہ سب کام بھی ضرور کرنے چاہئیں۔ ہمیں اپنے سماجی رویے اقلیتوں کے حوالے سے مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

بات صرف ہندوؤں سکھیوں اور مسیحیوں تک نہیں ہے۔ اس شہر میں بہائی اور پارسی بھی آباد تھے۔ ریلوے سٹیشن کے پاس آسٹریلیا مسجد کے سامنے ایک پارسی ڈاکٹر جمیشد ڈنشا کا کلینک ہوتا تھا جو اب  وہاں نہیں۔ کچھ عرصہ قبل میری ان سے فون پر بات ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کراچی شفٹ ہو گئے ہیں، لاہور میں رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ تاریخی طور ایک سیکولر شہر لاہور کا یہ روپ افسوس ناک ہے۔

آخر میں وزیر اعظم عمران خان کو کرتارپور میں بنائے نئے گردوارے کی عمارت کو حال ہی میں جو ٹوٹ پھوٹ ہوئی اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور تحقیات کروانی  چاہئیں کہ نئی عمارت اتنی جلدی کیسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔