لیڈرانِ کرام! آپ کی لڑائی ہمارے مفادات کو گزند پہنچا رہی ہے

لیڈرانِ کرام! آپ کی لڑائی ہمارے مفادات کو گزند پہنچا رہی ہے
یہ نکتہ نظر اپنی جگہ صائب ہے کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔ یہ نظریہ رکھنے والوں کے نزدیک حزب اختلاف اور حکومت میں ہم آہنگی کیونکر ہو سکتی ہے جب کہ حزبِ اختلاف کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھے۔ لیکن جب معاملہ کرونا جیسے عفریت سے نمٹنے کا ہو تو اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی طرف جھکاؤ سیاسی بالغ نظری ہے۔ باقی اتفاق رائے کے بجائے اختلاف رائے کو قائم رکھنا مزید دراڑیں پیدا کرنے کے مصداق ہے۔

اس وقت لفظی گولہ باری اور محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہیے۔ اختلاف تب درست مانا جاتا ہے جب کوئی مسئلہ حکومت یا اپوزیشن کی وجہ سے پیدا ہوا ہو اور وہ ملکی سطح کا ہو، لیکن اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے اور وبا نے نظامِ حیات خواہ وہ معاشی نظام ہو، سماجی نظام ہو یا مذہبی معاملات، سب کچھ تلپٹ کر دیا ہے۔ ایسی صورتحال میں دست و گریباں ہونا صائب بات نہیں ہے۔ یہ وبا سیاسی قیادت کی نااہلی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی نہ ہی یہ صرف ایک ملک یا خطے کا مسئلہ ہے۔ البتہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سیاسی نفاق کی وجہ سے اس کے پھیلاؤ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

اس وطن عزیز کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کرونا کے باعث سنگین معاملات در پیش ہیں۔ وبا نے معاملاتِ زندگی کا تیا پانچا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن ملک میں سیاسی چپقلش بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں تو تو میں میں میں پڑنا غیر سنجیدہ فعل ہے۔ جب دشمن سب کا ایک ہو تو اختلاف کی بھی گنجائش نہیں بنتی۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ گتھم گتھی بڑھتی جا رہی ہے اور ایک عدم اعتماد کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔

حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ جو کچھ کر رہی ہے وہ درست ہے اور وہ اپوزیشن کو ساتھ لینے کے حق میں نہیں ہے۔ اپوزیشن بھی اس گمبھیر صورتحال میں موجودہ حکومت کی سست اور ناقص کار کردگی کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ حالات جنگ میں پارلیمنٹ کی یکسوئی بڑی ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس طرح کا ماڈل موجود نہیں ہے اور جب ہم سیاسی لیڈرشپ کی بات کرتے ہیں تو اس میں صرف حکومت کی کردگی پر پھبتیاں کستے نہیں تھکتے۔ سیاسی لیڈرشپ میں اپوزیشن بھی آتی ہے اور ایسے حالات میں جب لیڈرشپ ایک ابتلا سے گزرتی ہے تو اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لاتی ہے۔ سیاسی اتفاق رائے کے فقدان کے باعث ابھی تک کئی دہاڑی دار مزدوروں کا ڈیٹا اکھٹا نہیں کیا جا سکا ہے، لاکھوں غریب لوگ امداد سے ابھی تک محروم ہیں، اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ صوبوں اور وفاق کا مشترکہ پلان نہیں ہے۔

عوامی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے مشترکہ لائحہ عمل اور اتفاق کی ضرورت ہے۔ یہ تبھی ممکن ہوگا جب روایتی بیان بازی سے پر ہیز کیا جائے۔
اگر یہ روایت بر قرار رہی تو منظر بدلنے کا انتظار کیجئے۔ بس شکایت نہ کیجئے گا۔