ہم ٹی ایل پی پر پابندی لگا رہے ہیں۔ اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کی وطن بدری کے حوالے سے کوئی قرارداد پیش نہیں کی جائے گی۔ ٹی ایل پی سے مذاکرات کامیاب ہو چکے ہیں۔ فرانسیسی سفیر کو قومی اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے واپس بھیج دیا جائے گا۔ ٹی ایل پی اور ہمارے مقاصد ایک ہی ہیں۔
اگر آپ ذہنی مریض نہیں تو یقیناً ان بیانات کو مسخرہ پن کی بہترین اشکال تصور کرینگے۔ لیکن پاکستانی قیادت، فوجی اور سیاسی، دونوں اسی کے ذریعے قانون کی بالادستی قائم کرنے پر بضد ہیں۔ پچھلے بیس برس سے یہ نسخہ دہشت گردی اور مذہبی جنونیت ایسے عفریت سے نمٹنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ہر استعمال کے بعد ریاست مزید کمزور اور دہشت گرد اور انتہا پسند مضبوط ہوتے جاتے ہیں۔ لیکن ہماری قیادت کا نسخے پر ایمان اٹل ہے۔
اس قماش کا سب سے پہلا سمجھوتہ فوجی قیادت نے پچیس اپریل دو ہزار چار کو شکئی معاہدہ کی صورت میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے کمانڈر نیک محمد کیساتھ کیا۔ اسوقت کے کور کمانڈر پشاور نیک محمد کے حضور جھکے انہیں ہار پہنائے اور امن کا سفیر ٹہرایا۔ یہ معاہدہ کامیاب ہوا۔ طالبان اتنے مضبوط ہوئے کہ جی ایچ کیو کے علاوہ فضائیہ اور بحریہ کے بیسسز پر بھی حملہ کرنے سے نہ ہچکچائے۔ اس زمانے میں فوجی افسران عوامی مقامات میں باوردی نہ پھر سکتے تھے۔ کوئی دن نہ ہوتا جب ملک کے کسی کونے میں خود کش حملہ نہ ہوا ہو۔ اسکے بعد ایک سے ایک امن معاہدہ ٹی ٹی پی سے ہوا اور یہ تنظیم پھیلتی ہی چلی گئی۔ آخر کار ایک کے بعد ایک فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ مگر ٹی ٹی پی ابھی تلک بھٹو کی طرح زندہ ہے اور ہر گھر سے نکل بھی رہی ہے۔ ادھر طالبان نے بھی امریکہ کو اپنے آگے ناک گھسیٹنے پر مجبور کر ہی دیا نا! اب وہ بھی سو جوتے سو پیاز کھانے کے بعد واپسی کی تیاری میں مصروف ہیں۔
جولائی تین دو ہزار سات میں لال مسجد پر فوجی آپریشن ہوا۔ ایک کرنل سمیت سو سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔ آپریشن کامیاب تھا۔ لال مسجد ابھی تک ان کا ہی ناقابل تسخیر قلعہ ہے جن سے قبضہ چھڑانے کے لئے یہ آپریشن کیا گیا تھا۔ کون جیتا؟
بیس سال قبل ہماری قیادت ہمیں یہ بتایا کرتی تھی کہ بریلوی دیوبندیوں کی طرح تشدد پسند یا انتہا پسند نہیں۔ ٹی ایل پی نے یہ نظریہ غلط ثابت کیا۔ جب چاہے ملک کو مفلوج کر سکتی ہے اور حکومت کو مجبور کر سکتی ہے کہ فرانسیسی سفیر کو نکال باہر کرے۔ لیکن ایسا نہیں کہ ریاست رٹ کے بغیر دندنا رہی ہے۔ تین دسمبر دو ہزار چودہ کو نابینا پاکستانی اپنے حق کے لئے لاہور میں مظاہرہ کر رہے تھے۔ پولیس نے انہیں مار مار کر لہولہان کر دیا۔ وہ منتشر ہونے پر مجبور ہو گئے۔ ہے نا رٹ!
ہماری قیادت اتنی احمق نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ وہ ہم سے کہیں زیادہ سمجھدار ہے۔ وہ جانتی ہے کہ آگ کو ایندھن سے نہیں بجھایا جا سکتا۔ پر وہ پھر بھی یہ ہی طریقہ استعمال کرتی ہے۔ ایسا کرنے میں سب کا فائدہ ہوتا ہے۔ سب سے مراد وہ لوگ جو یہاں فیصلہ ساز ہیں۔
ہم باشعور لوگ یہ چاہتے ہیں کہ قیادت لوگوں کو ایسی تعلیم دے جس میں علم اور عقل ہو تا کہ عوام یہ سمجھ سکیں کہ پرتشدد ہنگاموں سے فرانس کی معاشی اور فوجی طاقت کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے والا۔ صرف ایٹم بم بنا لینے سے ملک کا دفاع مضبوط نہیں ہوتا۔ دشمن ہماری کمزوری سے بخوبی واقف ہے۔ اسے صرف توہین کرنی ہے اور ہم نے آپس میں لڑنا ہے، ایک دوسرے کو قتل کرنا ہے۔ لوگوں اور ملک کی پراپرٹی کو آگ لگانی ہے۔ کوئی بھی توہین نہیں کر سکتا۔ توہین کرنے والا اللہ کے آگے جوابدہ ہو گا۔ ملک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ انسانوں کا مذہب سے واسطہ ہوتا ہے۔ کیوں نہ اس ملک کو ایسا خطہ بنایا جائے جہاں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان بلا خوف و خطر رہ سکے، پھل پھول سکے۔ کیا فرانس ایسا نہیں کرتا؟ ہم کیسا محسوس کرینگے اگر فرانس کی پارلیمنٹ سب پاکستانیوں یا مسلمانوں کو اپنے ملک سے باہر نکالنے کا فیصلہ کر لے؟
قیادت اتنی بھولی بھالی نہیں کہ اسے مسائل کا ادراک نہ ہو۔ اسے حل بھی معلوم ہے۔ لیکن اسے یہ علم بھی ہے کہ اگر لوگوں میں شعور آ گیا تو انہیں غلام بنا کر نہیں رکھا جا سکے گا۔ سوچیں اگر ہم میں شعور پیدا ہو جائے تو تمام مذہبی رہنما یا تو الیکٹریشن ہونگے، یا پلمبر یا گھروں میں ہمارے ملازم۔ پارٹی قیادت وراثت میں ملنا بند ہو جائیگی۔ یہ میرٹ پر ملے گی۔ بدعنوان جرنیل سیاستدان جیلوں میں ہونگے۔ فیوڈل لارڈ مزارعے ہونگے۔ کسی آرمی چیف میں یہ جرات نہ ہو گی کی مارشل لاء لگا سکے یا سول معاملات میں ٹانگ اڑا سکے۔ سب ادارے قانون کے مطابق کام کرینگے۔ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہو گا۔ آخر ہم ایسے ہی ممالک کا پاسپورٹ لینا پسند کرتے ہیں نہ ! حالانکہ ان ممالک کی بھی اپنی کمزوریاں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ قیادت کب تلک آگ کو ایندھن سے بجھاتی رہے گی؟ ہر چیز کا انجام مقرر ہے۔ ہمارے معاملے میں یہ مکمل تباہی ہے۔ کیا قیادت کو اس کا ادرا ک ہے؟
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔