کیا پی ٹی ایم کا جلسہ عمران خان کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی چال ہے؟

ہئیت مقتدرہ اس وقت تحریک انصاف کے ووٹ بینک کو خیبر پختونخوا سے ختم کرنے کے لیے جہاں جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور پرویز خٹک کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہی ہے، وہاں وہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے پی ٹی ایم کو بھی استعمال کر سکتی ہے۔

کیا پی ٹی ایم کا جلسہ عمران خان کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی چال ہے؟

اسلام آباد میں پشتون تحفظ موومنٹ نے ایک ایسے وقت میں جلسہ کیا ہے جب ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت تحریک انصاف جس کا ورٹر اسلام آباد شہر کی ہر گلی میں موجود ہے وہ اس وقت سوچ بھی نہیں سکتی۔ جس شہر کی دونوں قومی اسمبلی کی سیٹیں ان کے پاس ہیں وہاں جلسہ تو دور کی بات، ایک کارنر میٹنگ بھی نہیں کر سکتی لیکن اس کے باوجود ایک ایسی جماعت جو ہئیت مقتدرہ کی کبھی بھی پسندیدہ نہیں رہی ہمیشہ ہئیت مقتدرہ کے ساتھ ان کا 36 کا آنکڑہ چلتا رہا حیرت انگیز طور پر اس پشتون تحفظ موومنٹ کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔

اگرچہ یہ کوئی بہت بڑا جلسہ نہیں تھا۔ ماضی قریب میں تحریک انصاف نے اسلام آباد میں جو جلسے کیے ان کے مقابلے میں بہت چھوٹا جلسہ تھا، مگر سوال یہ ہے کہ وہ جلسہ ہوا جس میں 5 سے 8 ہزار کے قریب لوگ شریک ہوئے۔ آخر ان کو اسلام آباد داخلے کی اجازت کس طرح ملی؟ جلسے کے شرکا مقامی ہرگز نہیں تھے۔ وہ سب صوبہ خیبر پختونخوا سے بسوں اور کاروں میں بیٹھ کر اسلام آباد آئے تھے ان کو کسی نے نہیں روکا۔ جلسے میں شرکت کر کے واپس چلے گئے، پھر بھی کسی نے نہیں روکا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا پشتون تحفظ موومنٹ نے یہ جلسہ ہئیت مقتدرہ کی مرضی سے کیا؟ کیا ہئیت مقتدرہ اس وقت خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک ختم کرنے کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کرنے کو تیار ہے اور ان جماعتوں کو بھی اپنے مقصد کے حصول کیلئے استعمال کر سکتی ہے جن کو سخت ناپسند کرتی ہے؟

جو لوگ پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت منظور پشتین، علی وزیر وغیرہ کو جانتے ہیں وہ تو یہ بات سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں احباب کبھی بھی ہئیت مقتدرہ کا آلہ کار نہیں بن سکتے۔ علی وزیر سابق رکن قومی اسمبلی ہیں اور پچھلے 5 سالوں میں بے شمار دفعہ جیل جا چکے ہیں۔ منظور پشتین کا عسکری قیادت کے خلاف جو مؤقف ہے وہ عیاں ہے اور کھلم کھلا وہ ہئیت مقتدرہ پر تنقید کرتے ہیں۔ جو جلسہ ہوا ہے اس میں فوج کے خلاف کھل کر نعرے بازی ہوئی اور فوج کی سیاسی مداخلت پر تنقید کی گئی تھی مگر جلسے کے بعد علی وزیر اور ایمان مزاری کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ایمان مزاری وکیل ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت کی سابق وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ہیں۔ منظور پشتین کو گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ عسکری قیادت کے خلاف سب سے زیادہ نعرے بازی ان کی تقریر کے دوران ہوتی ہے۔

جیسا کہ سطور بالا میں لکھا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت کسی صورت میں بھی ہئیت مقتدرہ کی آلہ کار نہیں بن سکتی مگر یہ واضح ہے کہ ہئیت مقتدرہ اس وقت تحریک انصاف کے ووٹ بینک کو خیبر پختونخوا سے ختم کرنے کے لیے جہاں جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور پرویز خٹک کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہی ہے، وہاں وہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے پی ٹی ایم کو بھی استعمال کر سکتی ہے اور پی ٹی ایم کی قیادت کو اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے الگ حکمت عملی بنانی ہو گی۔ ان کے دو اہم ترین لوگ علی وزیر اور ایمان مزاری گرفتار ہو چکے ہیں مگر منظور پشتین حراست میں نہیں ہیں۔ پی ٹی ایم کو  ان نکات پر غور کرنا چاہئیے۔

دوسری طرف یہ تو طے شدہ ہے کہ ہماری ہئیت مقتدرہ کبھی بھی اپنے سیاسی کردار کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور ہمہ وقت محلاتی سازشوں میں مصروف عمل ہے۔ مقبول ترین سیاست دان عمران خان جیل میں ہے۔ اس کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش ناکام ہو چکی ہے اور اس کی جماعت تحریک انصاف کو ختم کرنے کی کوشش جاری ہے مگر ابھی تک چاروں صوبوں اور دو اکائیوں کشمیر، گلت بلتستان کے عوام کی اکثریت عمران خان کے ساتھ ہے۔ تمام سروے عمران خان کی مقبولیت کو 70 فیصد سے اوپر دکھا رہے ہیں مگر الیکشن ہوتے نظر نہیں آ رہے۔

یوں لگ رہا ہے کہ ہئیت مقتدرہ آگے آگے اور اٹک جیل کا قیدی نمبر 864 پیچھے پیچھے بھاگ رہا ہے کہ الیکشن کراؤ، الیکشن کراؤ۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔