Get Alerts

صدر نے تحریری طور پر مذکورہ بل پارلیمنٹ کو واپس بھیجنے کا نہیں کہا؛ سیکرٹری وقار احمد

وقار احمد کا کہنا ہے کہ حقائق واضح ہیں کہ میں نے ان بلز کے معاملے میں تاخیر، بے قاعدگی یا صرف نظر سے کام نہیں لیا۔ میں نے ایوان صدر کے دفتر کے وقار کو مجروح نہیں کیا۔ میں حلف اٹھا کر بیان دینے کو تیار ہوں۔ صدر کا سیکرٹری کی خدمات واپس کرنے کا فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں۔ صدر مملکت سے درخواست ہے کہ میری خدمات واپس کرنے کا خط واپس لیں۔

صدر نے تحریری طور پر مذکورہ بل پارلیمنٹ کو واپس بھیجنے کا نہیں کہا؛ سیکرٹری وقار احمد

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹسس ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہ کرنے کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعے میں ایک اور موڑ آ گیا ہے۔ صدر عارف علوی نے مبینہ 'غفلت' برتنے پر اپنے سیکرٹری وقار احمد کی تبدیلی کے لئے آج وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے نام خط لکھ دیا تھا۔ اس کے جواب میں اب سیکرٹری وقار احمد کا صدر مملکت کے نام خط منظرعام پر آیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مذکورہ بلوں سے متعلق میری جانب سے کوئی غفلت نہیں برتی گئی، میری تبدیلی سے صدر مملکت نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ مذکورہ معاملے میں میری جانب سے کوتاہی برتی گئی۔ میری تبدیلی سے متعلق صدر مملکت کا حکم انصاف پر مبنی نہیں، صدر اپنا حکم واپس لیں۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے خط میں سیکرٹری وقار احمد نے صدر مملکت کو لکھا ہے کہ صدر مملکت نے میری خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کرنے کی سفارش کی ہے لیکن میں کچھ حقائق سامنے لانا چاہتا ہوں۔ صدر مملکت نے خط کے ذریعے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ سیکرٹری مذکورہ بلوں سے متعلق کسی بے ضابطگی کا ذمہ دار ہے۔

وقار احمد کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2 اگست کو دفتری اوقات کے بعد ایوان صدر میں موصول ہوا اور 3 اگست کو یہ بل صدر مملکت کو بھیج دیا گیا تھا۔ اسی طرح آفیشل سیکرٹس ایکٹ ترمیمی بل 8 اگست کی شام کو دفتر بند ہونے کے بعد ایوان صدر کو موصول ہوا۔ آفیشل سیکرٹس ایکٹ ترمیمی بل 9 اگست کو صدر مملکت کو بھجوا دیا گیا۔ صدر مملکت ان دونوں بلز سے متعلق حقائق اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے مقررہ مدت کے اندر نہ ہی بلوں کی منظوری دی نا انہیں پارلیمنٹ واپس بھجوانے کے لئے تحریری ہدایت دی۔ یہ فائلز ابھی بھی صدارتی چیمبر میں موجود ہیں۔

وقار احمد کا کہنا ہے کہ حقائق واضح ہیں کہ میں نے ان بلز کے معاملے میں تاخیر، بے قاعدگی یا صرف نظر سے کام نہیں لیا۔ میں نے ایوان صدر کے دفتر کے وقار کو مجروح نہیں کیا۔ میں حلف اٹھا کر بیان دینے کو تیار ہوں۔ صدر کا سیکرٹری کی خدمات واپس کرنے کا فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں۔ صدر مملکت سے درخواست ہے کہ میری خدمات واپس کرنے کا خط واپس لیں۔

سیکرٹری وقار احمد نے یہ بھی لکھا ہے کہ صدر مملکت نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی نہ منظوری دی اور نا ہی تحریری طور پر واپس پارلیمنٹ بھیجنے کو کہا۔ مذکورہ فائل 21 اگست تک سیکرٹری کے آفس میں واپس نہیں بھجوائی گئی۔ انہوں نے صدر مملکت سے درخواست کی کہ وہ ایف آئی اے یا کسی بھی ایجنسی سے تحقیقات کرا لیں۔ اگر کسی آفیسر یا آفیشل نے کوتاہی کی ہے تو انکوائری کروا کر اس پر ذمہ داری ڈالی جائے۔ اگر سپریم کورٹ یا کسی عدالت نے مجھے بلایا تو میں ریکارڈ کے ساتھ جا کر حقائق بتاؤں گا اور ریکارڈ پیش کر کے اپنی بے گناہی ثابت کروں گا۔

یاد رہے کہ ایوان صدر سیکرٹریٹ نے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے نام خط لکھ کر کہا تھا کہ سیکرٹری صدر مملکت وقار احمد کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں، ان کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کی جا رہی ہیں۔ ایوان صدر کے خط میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی گریڈ 22 کی خاتون افسر حمیرا احمد کو صدر کی سیکرٹری لگانے کی سفارش بھی کی گئی تھی۔

اس سے قبل اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹویٹ کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا تھا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ ترمیمی بل پر میں نے دستخط نہیں کیے تھے اور اپنے عملے کو ہدایت دی تھی کہ انہیں بغیر منظوری کے پارلیمنٹ کو بھجوا دیا جائے۔ اس کے بعد کئی بار میں نے اپنے عملے سے تصدیق کی کہ مذکورہ بل واپس بھجوا دیے گئے ہیں تاہم اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے عملے نے میری مرضی کو مجروح کیا اور میرے حکم کی خلاف ورزی کی۔ خدا گواہ ہے کہ میں ان بلوں سے متفق نہیں ہوں اور میں نے ان کی منظوری نہیں دی۔