پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ پانامہ کیس کے سازشی کردار ایک ایک کر کے بے نقاب ہو رہے ہیں اور نجانے ابھی کتنے پوشیدہ کردار ہیں جو بے نقاب ہونے ہیں۔ ان تمام سازشی کرداروں کو تو قانونی کارروائی کے بعد سزا ہو ہی جائے گی لیکن اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ صرف ان کرداروں کو سزا دینے سے 75 سال کا گند صاف ہو جائے گا تو ہم بہت خوش فہمی کا شکار ہیں۔
کہتے ہیں کہ برے کو مت مارو اس کی ماں کو مارو یعنی برائی کو جڑ سے ختم کرو۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ اداروں میں بیٹھے افراد دوسروں کے کام میں مداخلت کرتے ہیں، اپنا کام نہیں کرتے۔ چار مارشل لاء اس کی ایک مثال ہیں۔ اس کے علاوہ سول حکومتوں کو کام کرنے کی کتنی اجازت ملی، اس سے سب واقف ہیں۔ اگر کسی منتخب وزیر اعظم نے ڈکٹیشن لینے سے انکار کیا تو اس کا حال بھٹو، بینظیر اور نواز شریف جیسا ہوا۔ ہمارے 'مہربان' اگر ملکی حالات کو بہتر کر سکتے تو دس دس سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
دوسری طرف ہماری عدلیہ کا کردار بھی انتہائی شرمناک رہا ہے۔ جسٹس منیر تو خواہ مخواہ بدنام ہو گیا ورنہ اس کے بعد آنے والوں نے جو کیا اس پر جسٹس منیر کی روح بھی شرمندہ ہوتی ہو گی۔ جس طرح پانامہ کا فیصلہ کیا گیا، جس طرح بنی گالہ کا محل جائز قرار دیا گیا، جہاں عدالتیں ملزم کو ضمانت دینے کے لئے صبح سے شام تک اور ایک سے دوسرے دن تک انتظار کرتی رہیں، جہاں چیف جسٹس اپنی مرسیڈیز بھیج کر ملزم کو بلائے اور اسے 'گڈ ٹو سی یو' کہے تو ایسی عدالتوں سے کوئی شعور سے عاری شخص ہی انصاف کی توقع کر سکتا ہے۔
جو ہوا سو ہوا، اب مستقبل میں بہتری کیلئے تمام اداروں سے غلط افراد کی چھانٹی وقت کا تقاضا ہے۔ فوج اور عدلیہ کے موجودہ سربراہان ماضی کے سربراہوں سے بدرجہ بہتر ہیں اور اپنے اداروں کے ساتھ ساتھ ملک کی بہتری کے خواہاں ہیں۔ اس لیے ان سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ خود کو آئین میں دی گئی ذمہ داریوں تک محدود رکھیں گے۔ عدلیہ اور افواج پاکستان کے سربراہان کا پارلیمنٹ کو سپریم سمجھنا بھی مثبت سوچ کا حامل ہے۔ حالات کی بہتری کے لیے مزید کچھ تجاویز اگلے کالم میں پیش کروں گا۔