ٹیپوں میں جکڑے ہوئے مجھے ایک سال ہو چلا

ٹیپوں میں جکڑے ہوئے مجھے ایک سال ہو چلا
21 دسمبر 2019 کو عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ کے قریب سے ایک چار سالہ بچہ عمر راٹھور اغوا ہو جاتا ہے اور پولیس چار دن تک اس کو ڈھونڈ نہیں پاتی۔ چار دن بعد اسی محلہ سے اس کی ٹیپوں میں جکڑی لاش، ٹھٹھرتی سردی میں بغیر کوٹ کے بے جان جسم، ایک الماری سے بر آمد ہوتا ہے۔

ریاست مدینہ کی پولیس کہتی ہے کہ انہوں نے کامیابی حاصل کر لی اور بچہ بر آمد ہوگیا لیکن اس ریاست کا منہ خون آلودہ ہے۔ کامیابی تو حاصل کی مگر ایک اور معصوم بچے کو درندوں کی بھینٹ چڑھانے کی کامیابی!

عمر وہ واحد بچہ نہیں ہے جس کے خون سے اس ریاست کے ہاتھ رنگے ہیں۔آئے روز ہمارے ملک کے بچے ان درندوں کی درندگی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔

عمر کے کیس نے جہاں سب کو جھنجوڑ کر رکھ دیا، اس نے ایک اور بات واضح کی کہ ہمارا عدالتی نظام کس قدر بوسیدہ ہے۔ قاتل اپنے وکلاء کی مدد سے کیس سے باعزت بری ہونے کی کوششوں میں ہیں اور عمر کے والدین ہر روز کچہری کے چکروں میں اپنے بیٹے کے چھن جانے کی اذیت سے گزرتے ہیں۔ ملزم سلاخوں کے پیچھے تو ہیں مگر انصاف؟ اس کی دور دور تک کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔

عمر کی ٹیپوں میں جکڑی لاش ہمارے ضمیر کیوں نہیں جھنجھوڑتی؟ کیوں ہم سب اپنے بچوں کو قتل ہوتا دیکھ کر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟ کیوں ابھی تک عمر کا خاندان انصاف سے محروم ہے؟ اس کے والد کی صرف ایک التجاء ہے کہ کیس روزانہ کی بنیادوں پر سن کر اس کا جلد از جلد فیصلہ دیا جائے مگر کیا خود کو ریاست مدینہ کہنے والے اور دریائے فرات کے کنارے کتے کے مرنے کی مثالیں دینے والے حکمران وقت کے ہمسائے کے معصوم بچے کے قتل پر انصاف ہو گا؟ کیا وزیر اعظم کے گھر کے قریب سے اغوا ہوجانے والے عمر راٹھور کے والدین اپنے بچے کے قاتلوں کو سزا ملتا دیکھ سکیں گے؟

عمر کے والد کے مطابق قاتلوں کے گھر والے بہت اثر و رسوخ والے ہیں اور ان کے سیاسی لوگوں سے تعلقات ہیں۔ ان قاتلوں کے گھر والوں نے یقین دلایا تھا کہ عمر کو انصاف دلوائیں گے اور وکیل بھی نہیں رکھیں گے۔ لیکن اب انہوں نے وکیل بھی کر لیا ہے، خاندان والوں سے الگ دباؤ ڈلوا رہے ہیں اور اپنی سیاسی وابستگیوں کا استعمال کر کے بھی قاتلوں کو بچانے کی سازش کر رہے ہیں۔عمر کے گھر والے ان کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں کہ انکا سامنا اذیت ناک ہے. ان کا کہنا ہے کہ اگر کیس کو مزید ملتوی کیا گیا تو ان قاتلوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوتی رہیں گی اور انہیں سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرنے کا موقع مل جائے گا۔ مزید برآں، اس واقع کے بعد عمر کے گھر والے شدید ذہنی اذیت میں مبتلاء ہیں۔ اس کی والدہ عمر کو انصاف ملنے کی منتظر ہیں، والد اپنا غم بھلا کر کیس کی کاروائی میں مصروف ہیں اور بہن بھائی روز عمر کی تصاویر دیکھ کر اذیت سے گزرتے ہیں۔ اس کے گھر والوں کو تو اپنے بیٹے کی اچانک موت کا دکھ منانے کا موقع بھی نہں ملا

20 دسمبر کو اسلام آباد میں عمر کے قاتلوں کو سزا دینے کے متعلق پریس کلب کے باہر احتجاج بھی ریکارڈ کرایا  گیا اور ٹویٹر پر #UmarAwaitsJustice کے پیش ٹیگ کے ساتھ مہم بھی جاری ہے۔ انصاف پر اب بھی سوالیہ نشان بنی عمر کی ٹیپوں میں جکڑی لاش ہماری بے حسی پر ماتم کر رہی ہے.

وردہ نور ایک سماجی کارکن اور لمز یونی ورسٹی میں قانون کی طالب علم ہیں جو عورتوں اور بچوں کے حقوق کے لیے جدو جہد کررہی ہیں۔