ہدایتکار شوکت حسین رضوی کے مقابل نور جہاں تھیں اور وہ خود سر پکڑے بیٹھے تھے۔ جو نور جہاں کو سمجھا رہے تھے کہ وہ ان کی فلم کے لیے کسی صورت موزوں نہیں ہیں لیکن یہ نور جہاں ہی تھیں جو ضد پکڑے بیٹھی تھیں کہ وہ ان کی اس فلم میں کام ضرور کریں گی ۔ شوکت حسین رضوی کے چہرے پر پریشانی اور بے بسی تھی۔
ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر کس طرح اپنی شریک سفر سے معذرت کریں۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ کردار ان کو ذہن میں رکھ کر تخلیق ہی نہیں کیا گیا۔کیونکہ اس میں ایک ماں کی تڑپ، درد اور محبت ہے اور وہ اس جذبے اور احساس سے کوسوں دور ہیں۔ لیکن نور جہاں، شوکت حسین رضوی کو قائل کرنے کی کوشش میں اپنی تمام تر توانائی استعمال کررہی تھیں۔ رٹا لگائے جارہی تھیں کہ بس کچھ بھی ہوجائے، انہوں نے ہی یہ کردار ادا کرنا ہے۔
اِدھر رضوی صاحب کی خواہش تھی کہ اس کردار کے لیے وینا کا انتخاب کیا جائے۔ نور جہاں کو ٹالنے کے لیے انہوں نے یہ تک کہا کہ وہ صرف 19 برس کی ہیں اور یہ کردار نوجوانی سے ادھیڑ عمر کا ہے، بھلا وہ کیسے اس کردار کے ساتھ انصاف کریں گی، اگر یہ کردار ادا کیا تو ساری عمر ہیروین کے بجائے ایسے ہی معاون کرداروں میں آتی رہیں گی۔ نور جہاں بھی اب مقابلے پر آچکی تھیں۔ جنہوں نے کہہ دیا کہ وہ جس کردار کے تلاش میں تھیں، وہ یہی کردار ہے۔ شوکت حسین رضوی نے ایک بار پھر انہیں سمجھایا کہ وہ اِس وقت حاملہ ہیں اور اس حالت میں کس طرح اس کردار کو ادا کرپائیں گی۔شوکت حسین رضوی نے بڑی ٹھو س دلیل دی تھی جبھی نور جہاں کے چہرے پر فکر کے آثار نمایاں ہوئے۔تھک ہار کر انہوں نے شکستہ دل کے ساتھ یہ تسلیم کرلیا کہ ان کا من پسند کردار قریب ہوتے ہوئے بھی انہیں نہ مل سکا۔
قصہ ہے 1944 کے اختتامی مہینوں کا ، جب ہدایتکار شوکت حسین رضوی ’ زینت‘ کی عکس بندی کا آغاز کرچکے تھے۔ فلم کی کہانی وجاہت مرز ا کی تھی۔اب یہ حسن اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ شوکت حسین رضوی نے جس تیزی سے فلم پر کام شروع کیا تھا، ایک مقام ایسا آیا کہ یہ تخلیق تعطل کا شکار ہوگئی ۔ اسی دوران نور جہاں نے بیٹے کو جنم دیا۔جس کے بعد وہ پھر شوکت حسین رضو ی کے پیچھے پڑگئیں کہ اب وہ جب بھی فلم کا آغاز کریں گے۔ وہ اس کردار کو ہر صورت ادا کریں گی۔کسی اور اداکارہ کواس فلم میں کام بھی کرنے نہیں دیں گی۔ یہی نہیں اب شوکت حسین رضوی کا کوئی بہانہ چلنے بھی نہیں دیں گی۔ ہدایتکار نے نور جہاں کا یہ جنون اور شوق دیکھا تو مجبوراً انہیں ہی اس فلم کی ہیروئن بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ ’ زینت‘ میں نور جہاں کے علاوہ یعقوب، کرن دیوان، آغا سلیم رضا اور لیلا مشرا شامل تھیں۔
’ زینت‘ کی کہانی بڑی دلچسپ، جذباتی اور ڈرامائی موڑ لیے ہوئے تھی۔ زینت کے کردار میں نور جہاں جلوہ گر ہوئیں۔ داستان تھی ایک ایسی لڑکی کی جس کی شادی والے اس کا دلہا گھوڑے سے گر کر زخمی ہو کر بستر سے ہی جا لگتا ہے۔ اسی دوران رات میں چوری چھپے زینت اس سے ملتی ہے لیکن اگلے چند دنوں میں فالج کا شکار ہو نے والا دلہا موت کی نیند جا سوتا ہے۔ زینت حاملہ ہوتی ہے تو لوگ اس کے کردار پر انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں۔ وہ یہ راز سب سے چھپا کر رکھتی ہے کہ وہ اپنے دلہا سے مل چکی ہے۔ ایسی صورتحال میں لوگوں کے طعنوں سے بچنے کے لیے بیٹی کی پیدائش پر وہ اسے قبرستان چھوڑ آتی ہے۔ جہاں سے زینت کے مرحوم شوہر کا بے اولاد دوست بچی کو گھر لے آتا ہے۔ قسمت کی یاوری دیکھیں کہ اسی گھر میں زینت اپنی ہی بچی کی آیا بن کر آجاتی ہے۔ کہانی میں اُس وقت تناؤ اور کشمکش آجاتی ہے جب یہ بچی جوان ہوتی ہے اور بیاہا کر پیا گھر جانے والی ہوتی ہے تو باراتیوں میں سے کوئی زینت کو پہچان لیتا ہے۔ ایک بار پھر اس کے کردارپر الزاموں کی برچھیاں چلائی جانے لگتی ہیں۔ بیٹی کی ولدیت پر شک کے بادل گہرے ہونے لگتے ہیں تو اسی گرما گرمی میں گواہی مل جاتی ہے کہ زینت کوئی بد کردار نہیں بلکہ بیٹی اُس کے مرحوم شوہر کی ہی نشانی ہے۔ اسی دوران غلط الزاموں سے تنگ آکر زینت زہر کھا لیتی ہے لیکن مرتے وقت اُس کی خوشی اس وقت دوبالہ ہوجاتی ہے جب اُس کی بیٹی اسے ’ماں‘ کہہ کر مخاطب کرتی ہے اور ہر کوئی یہ تسلیم کرلیتا ہے جو زینت دعویٰ کررہی ہے، اس میں سچائی ہے۔
’ زینت‘ جب 16 نومبر 1945 کو پردہ سیمیں کی زینت بنی تو اس نے کامیابی کے کئی فقدالمثال ریکارڈ بنا دیے۔ کاروبار تو اس کا بہترین رہا۔ اُس سال کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم کا درجہ حاصل کیا۔ فلم کے بیشتر گیت خود نور جہاں نے گائے۔ ’ زینت‘ میں شامل ایک قوالی ’آہیں نہ بھریں شکوے نہ کیے‘ تو ہر ایک کے لبوں پر تھی۔ جسے زہرہ بائی انبالے والی، نورجہاں اور کلیانی نے گائی۔یہ ہندوستانی فلموں کی پہلی نسوانی قوالی تصور کی جاتی ہے۔ جبکہ وہ کردار جو نور جہاں نے لڑ جھگڑ کر ضد میں آکر شوکت حسین رضوی سے لیا تھا، اس پر نورجہاں کی غیر معمولی اداکاری نے انہیں ایوارڈ کا حقد ار بھی بنا دیا۔