پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے صوبائی اسمبلیوں تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے سیاسی پارٹیوں میں کامیابی کے لئے مسلسل رسہ کشی جاری ہے۔ کیا موجودہ حالات میں ایسا ہو پائے گا؟
عمران خان کے اعلان کے بعد، پیر کی شب مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلی، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی۔ ساتھ ہی ساتھ گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا بھی کہہ دیا۔ گورنر کی جانب سے بھیجی گئی سمری کے مطابق وزیراعلی پنجاب پرویز الہی کو آج، بروز بدھ یہ اعتماد کا ووٹ لینا تھا۔ لیکن پنجاب اسمبلی کے سپیکر سبطین خان نے گورنر پنجاب کی جانب سے بھیجی گئی سمری پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ اپنے فیصلے کی سپورٹ میں سپیکر نے 1997 کے منظور وٹو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں عدالت فیصلہ دے چکی کے کہ جب اسمبلی کا اجلاس جاری ہو، اس وقت گورنر وزیراعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا نہیں کہہ سکتا۔
پنجاب اسمبلی کے رولز آف بزنس 1997 کے سیکشن 22 میں اعتماد کا ووٹ لینے کا طریقہ کار درج ہے۔ سیکشن 22 کی ذیلی شق 7 کے مطابق، اگر وزیراعلی مقررہ تاریخ پر اعتماد کا ووٹ نہیں لیتا تو یہ خودبخود تصور کیا جائے گا کہ وہ وزیراعلی ایوان کا اعتماد کھو چکا ہے۔
میڈیا میں آنے والے مسلم لیگ نون کی قیادت کے بیانات سے بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسی شق پر زور دیتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں جب پرویز الہی ایوان سے اعتماد کا ووٹ نہیں لیتے تو گورنر پنجاب سیکرٹری پنجاب اسمبلی کو ہدایت دیں گے کہ چونکہ وزیراعلی نے اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کیا اس لیے، اسمبلی میں نئے وزیراعلی کے انتخاب کی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ ایس صورت میں معاملہ یقینا عدالت میں چلا جائے گا۔
اسی طرح، پنجاب اسمبلی کے رولز آف بزنس 1997 کے سیکشن 23 میں بتایا گیا ہے وزیر اعلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے کیسے نمٹا جائے۔ سیکشن 23 میں کہا گیا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کی وصولی کے بعد 7 روز کے اندر اندر اسکا نوٹس تمام ممبران کو دیا جائے۔ اور 7 روزہ نوٹس پیریڈ کے اختتام پر 3 سے 7 دن کے اندر اس پر ووٹنگ کروائی جائے۔ یعنی عدم اعتماد کی تحریک جمع ہونے کے کم از کم 10 اور زیادہ سے زیادہ 14 دن کے اندر اندر اس پر ووٹنگ کروانا ضروری ہے۔ اس حساب سے، عدم اعتماد کی تحریک پر جلد از جلد ووٹنگ بھی 30 دسمبر سے پہلے نہیں ہو سکتی۔
عمران خان نے اگرچہ 23 دسمبر کو دونوں صوبائی اسمبلیوں تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن موجودہ صورتحال میں نہ صرف پنجاب کی اسمبلی 23 تک تحلیل ہوتی نظر نہیں آ رہی، بلکہ خیبر پختونخواہ میں جاری دہشت گردی کی نئی لہر کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ جمعہ 23 دسمبر کو وہاں بھی اسمبلی کو تحلیل کر دیا جائے گا۔