’’نعیم الحق ابھی زندہ تھے مگر اُن کے بنگلے پر قبضے کی جنگ شروع ہو گئی تھی‘‘

’’نعیم الحق ابھی زندہ تھے مگر اُن کے بنگلے پر قبضے کی جنگ شروع ہو گئی تھی‘‘
جیو نیوز کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک بلاگ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نعیم الحق ابھی زندہ تھے مگر اُن کے بنگلے پر قبضے کی جنگ شروع ہو گئی تھی۔

اردو ڈاٹ جیو ڈاٹ ٹی وی پر شائع ہونے والے بلاگ بعنوان '' نعیم الحق کے بنگلے پر قبضے کی جنگ'' میں بلاگر منصور آفاقی نے لکھا ہے کہ نعیم الحق وزیراعظم کے معاونِ خصوصی تھے، اُن کا عہدہ وزیر مملکت کے برابر تھا۔ ان کی رہائشگاہ منسٹر کالونی کے ہاؤس نمبر 15میں تھی۔ وہ ابھی زندہ تھے مگر اُن کے بنگلے پر قبضے کی جنگ شروع ہو گئی تھی۔

منصور آفاقی نے مزید انکشاف کیا کہ ڈاکٹرز نے بتا دیا تھا کہ وزیر مملکت چند دنوں کے مہمان ہیں۔ جب بیماری نے شدت اختیار کی تھی تو ان کی ناقدری کا آغاز ہوا اور پھر روز بروز د ن بڑھتی چلی گئی۔ وہ کراچی نہیں جانا چاہتے تھے انہوں نے باقاعدہ وصیت کی تھی کہ مجھے اسلام آباد دفن کیا جائے۔ کئی ماہ پہلے بنی گالہ کے قبرستان میں اپنے لئے قبر کی جگہ بھی سلیکٹ کی تھی۔ افسوس کہ جن ساتھیوں پر تکیہ تھا انہوں نے ہی وفا نہ کی۔ جب دیکھا کہ سیاسی امور کے معاون خصوصی بس چند دن اور ہیں تو انہوں نے ان کے بیٹےکو کراچی سے بلا لیا کہ آئیں اور انہیں اپنے ساتھ کراچی لے جائیں۔ شاید بنگلے پر قبضہ کرنے والوں سے ان کی موت کا انتظار نہیں ہو رہا تھا۔ نعیم الحق کے بیٹے امان الحق نے ان کے ساتھیوں سے کہا کہ وہ کراچی آنے پر تیار نہیں ہیں۔ میں انہیں پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں۔

ساتھیوں نے بیٹے کو مشورہ دیا کہ آپ اپنے ابو سے کہیں کہ ہم علاج کے لئے آپ کو لندن لے کر جا رہے ہیں۔ سو بیٹے نے باپ کو یہی کہا۔ باپ تیار ہو گیا۔ وہ جاتے ہوئے اپنے گھر میں کام کرنے والے تمام ملازمین سے ملا اور انہیں کہا کہ میں علاج کے لئے لندن جا رہا ہوں، آپ بےفکر رہیں۔ بہت جلد ٹھیک ہو کر واپس آجاؤں گا۔ جب بیٹا ان کو لے جانے لگا تو وہاں ان کے دفتر کا کوئی آدمی موجود نہیں تھا۔ اتفاق سے قاسم خان سوری ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی وہاں موجود تھے جو ان کی عیادت کرنے آئے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ چلو میں بھی ایئرپورٹ تک انہیں الوداع کہنے چلا جاؤں۔ جب ایئر پورٹ پہنچے تو وہاں وفاقی وزیر کے برابر کا عہدہ رکھنے والے وزیراعظم کے معاون خصوصی کیلئے کوئی بندوبست نہیں تھا۔ سرکاری طور پر کوئی نہیں تھا جو ویل چیئر منگواتا۔ بورڈنگ کارڈ حاصل کرتا۔ یہ صورتحال دیکھ کر قاسم خان سوری نے اپنے اسٹاف کو بلایا اور انہوں نے جلدی سے تمام معاملات مکمل کرائے۔ بڑی مشکل سے انہیں کار سے ویل چیئر پر منتقل کیا گیا اور پھرجہاز کی نشست پر بٹھایا گیا۔ جب جہاز لندن کے بجائے کراچی ایئر پورٹ اترا اور اسے بیٹا اپنے گھر لے آیا تو نعیم الحق کو معلوم ہو گیا کہ اس کے ساتھ کیا کیا گیا ہے۔ اسے مرنے کے لئے گھر بھیج دیا گیا ہے۔ یہ خبر اس کے لئے اس کی موت سے زیادہ تکلیف دہ تھی۔ سو وہ وقت سے پہلے دنیا سے رخصت ہو گیا۔

منصور آفاقی کے کہنا ہے کہ ڈاکٹرز کے خیال کے مطابق اگر ہسپتال میں ان کا علاج جاری رکھا جاتا تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ وہ ایک ڈیڑھ مہینے اور زندہ رہتا۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ تحقیقات کرائیں کہ آخری دنوں میں نعیم الحق کے ساتھ ایسا سلوک کن لوگوں نے کیا۔ اگر ایک وفاقی وزیر بھی کسمپرسی کی حالت میں مر جائے تو کسی اور کے ساتھ کیا انصاف ہو گا۔ یہ سب سوال بہت اہم ہیں کہ ان کے ساتھ ان کا اسٹاف کیوں نہیں تھا۔ ان کا باقاعدہ پروگرام کیوں نہیں جاری کیا گیا۔ انہیں کراچی اور اسلام آباد میں پروٹوکول کیوں نہیں فراہم کیا گیا۔ انہیں گھر سے ایئر پورٹ تک ایمبولینس میں کیوں نہیں بھیجا گیا۔ قانوناً تو وفاقی وزیر اگر بیمار ہو اس کے لئے ایئر ایمبولینس فراہم کی جاتی ہے۔

پچھلے پندرہ بیس دنوں میں عمران خان نے دو مرتبہ نعیم الحق کی عیادت کی۔ دونوں مرتبہ جب عمران خان وہاں پہنچے تو وہاں دو ایسے اشخاص موجود تھے جن کے بارے میں عمران خان کہہ چکے تھے کہ انہیں میرے سامنے مت آنے دیا جائے۔ اس بات پر نعیم الحق حیران تھے کہ جیسے ہی عمران خان اس کے پاس آئے۔ یہ دونوں یہاں کیسے پہنچ گئے بہرحال ان میں ایک شخص تو آج کل پھر عمران خان کی میٹنگز میں شریک ہو رہا ہے مگر کس حیثیت سے؟ اس سوال کا جواب ابھی وزیراعظم سیکرٹریٹ میں کسی کے پاس نہیں۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اس بات کا بہت دکھ ہے کہ عمران خان نعیم الحق کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے۔ خبر یہی ہے کہ وہ جنازے پر کراچی جانا چاہتے تھے مگر انہیں کہا گیا کہ سیکورٹی کے مسائل خاصے گمبھیر ہیں۔ آپ کراچی نہیں جا سکتے۔