Get Alerts

سانحات کی ماری ہوئی قوم

سانحات کی ماری ہوئی قوم
ساہیوال میں ایک ایسا دلخراش سانحہ رونما ہوا ہے کہ جس کے درد سے ابھی تک روح بے چین ہے۔ ایسا پتہ نہیں کیوں ہے، حالانکہ اس طرح کے واقعات تو ہمارے سماج میں ہوتے ہی رہتے ہیں۔ ہم کچھ عرصہ ماتم کرتے ہیں۔ پھر ایک اور واقعہ ہوتا ہے اور ہم اس کے افسوس اور مذمتوں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ شائد اس واقعہ میں پھول جیسے بچے شامل ہیں۔ جیسے پشاور کا سانحہ تھا۔ جس میں دہشت گردوں نے معصوموں کا خون بہایا تھا۔ جس کے بارے میں سوچ کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مگر یہاں پر تو جس تکلیف سے دل چھلنی ہے وہ یہ ہے کہ ان معصوموں کو دہشتگرد کہا گیا۔ اور ان پر فائرنگ کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ قانون کے محافظ ہیں۔ ان معصوم بچوں کی تصویر دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کتنے ظالم ہوں گے وہ لوگ جنہوں نے ان کے والد کے روکنے کے باوجود ان کے سامنے اندھا دھند گولیاں چلا دیں جس سے ان کے والدین کے ساتھ ان معصوموں کی ایک پھول جیسی بہن بھی جان کی بازی ہار گئی۔

پھر کوئی ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کا ذکر کر کے اس واقعہ کی توجیہہ پیش کر رہا ہے کہ اگر اس حکومت میں یہ واقعہ ہو گیا ہے تو پچھلی حکومت میں ماڈل ٹاؤن کا واقعہ بھی تو ہوا تھا۔ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ بھی ظلم اور بربریت تھا جس میں قانون کے محافظوں نے بے گناہ انسانوں کا خون بہایا تھا، اور یہاں پر بھی اسی طرح بے حسی کی تاریخ رقم کی گئی ہے کہ معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو بیدردی سے گولیاں مار کر خون میں نہلا دیا گیا ہے۔ تو جس طرح ماڈل ٹاؤن واقعے کو سیاست کی نذر کیا گیا، اس دلخراش واقعہ پر بھی سیاست چمکانا کیا ضروری ہے؟ کوئی کہہ رہا ہے کہ اس طرح کے واقعات تو پوری دنیا میں ہوتے رہتے ہیں۔ جی بالکل ہوتے رہتے ہیں، مگر کیا وہاں پر بھی جب ماورائے عدالت قتل کے واقعات ہوتے ہیں تو ان واقعات پر تحقیقات کرنے کے بعد ملوث افراد کو سزا دینے کی بجائے اس طرح ان پر سیاست کی جاتی ہے؟ یا وہاں بھی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ایسے واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں؟



اور اب پنجاب کے وزیرِ قانون صاحب فرما رہے ہیں کہ ان افراد کے گھر سے دہشتگردی کے شواہد ملے ہیں اور ان کو داعش سے متعلقہ لوگوں کا آلہ کار بتایا جا رہا ہے۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو بھی پولیس والوں کو یہ حق کس نے دیا کہ اس طرح سے جب اپنے بچوں کے ساتھ وہ ایک شادی میں شرکت کرنے جا رہے تھے تو ان کی گاڑی پر فائرنگ کر دی جائے؟ کیا یہ لوگ ان دہشتگردوں سے زیادہ خطرناک تھے جنہوں نے یہاں پر اے پی ایس واقعہ سمیت بے گناہ لوگوں کو مار کر خون کی ہولی کھیلی اور ریاست نے ان لوگوں کے ایک ساتھی احسان اللہ احسان کو اپنا سرکاری مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے؟ یا یہ ان سے بھی زیادہ خطرناک تھے جو دوسرے ممالک میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں مگر آزادی سے رہ رہے ہیں؟ یا ان مذہب کے ٹھیکیداروں سے جنہوں نے مذہب کے نام پر اپنے مخالف فرقے کے بہت سارے لوگوں کو قتل کیا اور وہ بھی کھلے عام جلسے جلوس کرتے ہیں اور ریاستی اداروں کے عہدیداروں سے ملاقاتیں بھی کرتے ہیں۔



عام طور پر ہمارے ملک میں جب بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ماورائے عدالت قتل کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو کچھ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے ہیں کہ جن کو تو کٹہرے میں لایا ہی نہیں جا سکتا اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی بات کی جا سکتی ہے، کیونکہ اس سے آپ غدار قرار دیے جا سکتے ہیں۔ مگر حالات یہ ہیں کہ پولیس کی طرف سے کیے گئے ایسے جرائم پر بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے لئے طرح طرح کی توجیہات گھڑ کر عوام کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اس میں نہ صرف پولیس کا محکمہ شامل ہوتا ہے بلکہ حکومت کے لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پولیس والوں نے کسی اہم حکومتی شخصیت کے کہنے پر ہی ایسا کام کرنا ہوتا ہے۔ ماڈل ٹاؤن اور نقیب اللہ محسود کیس میں ایسا ہی ہوا تھا اور اب بھی حکومت کے لوگ جس طرح سے ساہیوال واقعہ کے بارے میں پولیس کے حق میں تاویلیں پیش کر رہے ہیں اس سے بھی یہ تاثر ملتا ہے کہ کہیں پر کچھ گڑبڑ ہے۔



اس واقعہ پر بھی جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے۔ اس کی رپورٹ بھی آ جائے گی۔ مگر اس سے کیا ہو گا؟ کیا اس سے ان معصوم بچوں کے والدین اور ان کی بہن واپس آ جائیں گے یا جس ذہنی کرب اور خوف کا شکار وہ اب ہیں اور ساری زندگی رہیں گے، کیا اس میں کوئی کمی آ جائے گی؟ یا وہ کبھی سر اٹھا کر جی سکیں گے؟ ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ ہاں اتنا ہو جائے کہ اس واقعہ میِں ملوث افراد کو اگر سزا مل جائے تو شائد ان بچوں کو کچھ دلاسہ ملے ورنہ پیسوں کی امداد تو ان کے لئے بے معنی ہے۔ ویسے اس کا امکان بہت کم ہے کیونکہ اس واقعہ کی طرح نقیب اللہ محسود اور ماڈل ٹاؤن کے واقعات کے لواحقین ابھی تک انصاف کے لئے در بدر بھٹک رہے ہیں مگر ان کو انصاف نہیں مل سکا۔ یہ بھی وہ واقعات ہیں جو میڈیا کی وجہ سے لوگوں کے سامنے آ گئے ہیں ورنہ بے شمار ایسے واقعات کو تو دبا دیا جاتا ہے اور جن کے ساتھ ایسا ہوتا ہے ان کا کوئی پرسانِ حال ہی نہیں ہوتا۔

تحریکِ انصاف کی حکومت کے لئے یہ واقعہ بہت اہم ہے۔ اس سے پتہ چلے گا کہ ماضی میں اس طرح کے ہونے والے واقعات پر وہ جس طرح ردِ عمل دیتے ہوئے کاروائی کا مطالبہ کرتے تھے اب اپنی حکومت میں اس پر کس طرح کا ایکشن لیتے ہیں کیونکہ بہر حال اس طرح کے ہر واقعہ میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی ذمہ داری حکومتِ وقت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اگر تو واقعی اس واقعہ میں ملوث افراد کو سزا ملتی ہے تو یہ ایک بہت اچھی روایت ہے۔ ورنہ سانحات کی ماری ہوئی یہ قوم اسی طرح سے اس سانحہ کو بھی بھلا دے گی جس طرح اس سے پہلے ہونے والے اس طرح کے سانحات کو بھلا دیا گیا اور ایک نیا سانحہ رونما ہونے کے خوف میں مبتلا ہو جائے گی!

مصنف جامعہ پنجاب سے ابلاغیات میں ماسٹرز کر چکے ہیں، سیکولرازم کے حامی اور سیاست، ادب اور موسیقی سے شغف رکھتے ہیں۔