ہمارے علاقے میں ریاست کی رٹ ختم ہو چکی ہے؛ محسن داوڑ

ہمارے علاقے میں ریاست کی رٹ ختم ہو چکی ہے؛ محسن داوڑ
پارلیمان کے ایک وفد کے ساتھ میں چین میں تھا جب اطلاع ملی کہ ہماری پارٹی کے ایک مقامی رہنما اور ہمارے دوست عتیق داوڑ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا ہے۔ اس واقعے پر تحقیقات کا مطالبہ تو ہم کیا کریں گے، ہمیں معلوم ہے اس کی کوئی تحقیقات نہیں ہونی کیونکہ ہمارے علاقے میں ریاست کی رٹ تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ یہ کہنا ہے شمالی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے محسن داوڑ نے کہا کہ جب سے میں پارلیمنٹ کا رکن بن کر آیا ہوں بار بار اس معاملے کی نشاندہی کر رہا ہوں کہ وہاں حالات کس طرف چلے گئے ہیں مگر مین سٹریم پاکستان کے لئے یہ باتیں ابھی بھی غیر متعلق ہیں۔ ان واقعات کی تحقیقات تو دور کی بات ہے، ہمیں پرچہ کٹوانے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عتیق داوڑ کی طرح پچھلے پانچ سال میں ہم نے اپنے کئی ساتھیوں کو ایک ایک کر کے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنتے دیکھا ہے۔ ہمارا گلہ یہ ہے کہ مین سٹریم پاکستان کے لئے ان واقعات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ باقی پاکستانیوں کو یہ واقعات تب اہم لگیں گے جب خدانخواستہ یہ ان کے گھر کی دہلیز تک نہیں پہنچ جاتے۔

گذشتہ دو روز کے دوران صوبہ خیبر پختونخوا میں دو دھماکے ہوئے۔ ایک پشاور میں ہوا اور ایک باڑہ میں اور یہ دونوں خودکش دھماکے تھے۔ خودکش حملے جس شدت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں یہ بہت تشویش ناک بات ہے۔

دہشت گردی سے متعلق ایوان سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ رواں سال کے آغاز میں جب پشاور میں خودکش دھماکہ ہوا تو اس کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا۔ اس اجلاس کے دوران ایوان کی غیر سنجیدگی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ایوان میں دہشت گردی پر کوئی بحث نہیں کی گئی تھی۔ اس معاملے پر تب تک بحث نہیں ہو گی جب تک یہ خطرہ مین سٹریم پاکستان کی دہلیز تک نہیں پہنچ جاتا۔

ایک اور واقعے میں ٹانک کے ایک رہائشی خالد بٹانی جو ایک کمپنی میں سکیورٹی گارڈ تھے انہیں کشمور میں کچے کے ڈاکوؤں نے اغوا کر لیا ہے۔ ان ڈاکوؤں کا معمول بن چکا ہے کہ وہ لوگوں کو اٹھاتے ہیں، ان پر تشدد کرتے ہیں اور پھر تشدد کی ویڈیو وائرل کر دیتے ہیں۔

خالد بٹانی پر بھی تشدد کیا جا رہا ہے۔ ان کے قبیلے کے لوگوں اور رشتہ داروں نے وہاں جا کر احتجاج کیا ہے مگر ابھی تک مغوی کا کوئی اتا پتہ معلوم نہیں کیا جا سکا۔ سندھ حکومت سے درخواست کی جائے کہ وہ اس واقعے سے متعلق رپورٹ جمع کرائیں اور بتائیں کہ مغوی کی بازیابی کے لئے انہوں نے کیا کارروائی کی ہے۔