قاضی فائز عیسیٰ کیس: کھیل تو ابھی شروع ہوا ہے

قاضی فائز عیسیٰ کیس: کھیل تو ابھی شروع ہوا ہے
قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھیجے گئے صدراتی ریفرنس کو سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے متفقہ طور پر خارج کر دیا۔ سپریم کورٹ کے اس وقت دوسرے سینیئر ترین جج کے خلاف یہ ریفرنس پچھلے سال حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا اور فائز عیسیٰ کی درخواست پر مقدمہ فل کورٹ کو بھیجا گیا۔ اس ساری صورتحال میں اور اس سے پہلے بھی جس طرح سے قاضی صاحب نے حق کے لئے آواز اٹھائی وہ قابل تحسین ہے۔

قاضی فائز عیسیٰ اس دن اتنا دلچسپ نہیں لگا جس دن یہ پتہ چلا کہ وہ قاضی عیسیٰ (آل انڈیا مسلم لیگ کے صوبہ بلوچستان کے سابق صوبائی صدر) کا بیٹا ہے بلکہ اس دن پسند آیا جب یہ علم ہوا کے پورے بلوچستان میں سے واحد جج تھا جس نے 3 نومبر 2007 کے بعد اس وقت کے کلی اختیار کے مالک اور آمر جنرل پرویز مشرف کے PCO کے تحت حلف لینے سے انکار کیا۔ اور پھر 2009 میں عدلیہ بحالی کے بعد سینیئر ترین جج ہونے کے ناطے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے۔

اس کے بعد جب وہ سپریم کورٹ پہنچے تو پھر معاملات نیے رخ کی طرف گئے۔ فائز عیسیٰ سے پیپلز پارٹی میموگیٹ پر ناراض ہوئی تو ن لیگ کے دبنگ وزیر داخلہ کوئٹہ حملہ کیس کی رپورٹ پر خفا ہوئے۔ شیخ رشید کی نااہلی کے مقدمے میں اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے اپنی ہی عدلیہ کے معیارات کو غیر مساوی اور چنیدہ قرار دیا۔ پانامہ کیس کے فیصلے سمیت دیگر مقدمات کو ریویو کرنے کا عندیہ بھی دیا اور حدیبیہ پیپرز مل کے مقدمے کو سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ساتھ مل کر ختم کرنے کا فیصلہ سنایا۔ جس کے بعد بدعنوانی اور نااہلیوں کے مسائل میں گھری ہوئی مسلم لیگ نواز بالخصوص شریف خاندان نے وقتی طور پر سکھ کا سانس لیا۔

انہی فیصلوں سے وہ موجودہ حکومت کی نظروں میں کٹکھنا شروع ہوئے کیونکہ موجودہ حکومت کے انقلابی قائد عمران خان اور ان کے ٹائیگرز کے لئے یہ سب کچھ جس سے کسی بھی طرح ان کے مخالفین سرخرو ہوں، قابل قبول نہیں تھا۔

پھر 2017 آیا اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مقام فیض آباد میں تحریک لبیک کی جانب سے انتخابی فارم میں مبینہ تبدیلی پر دھرنا دیا گیا۔ کیوں؟ کیسے؟ اور کس کی مدد سے شرکا وہاں پہنچے، بیٹھے، ملکی نظام کو مفلوج کیا؟ اور کس کی ضمانت اور فی کس ہزار روپے کے نوٹ کے ساتھ دھرنے کے مقام سے اپنے گھروں کو لوٹے؟ اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے از خود نوٹسز لیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس وقت کے سینیئر ترین جج نہ بن سکنے والے اگلے چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ریمارکس اور بعد میں بار میں کی جانے والی تقریر پر ان کو گھر روانہ کر دیا گیا۔ باقی رہ گئے سپریم کورٹ میں فائز عیسیٰ جہنوں نے از خود نوٹس کے مقدمے میں تفصیلی فیصلہ لکھ کر بہت سی چیزوں سے پردہ بھی ہٹایا اور بہت سے طاقتوروں کو للکارا۔ اس کے بعد قاضی صاحب زیرعتاب آ گئے۔

کچھ احباب نے یہ بھی کہا کہ یہ فیصلہ پاکستان میں جمہوریت اور جمہور کی ذبوں حالی کی داستان ہے۔ اس کو تعلیمی اداروں، سیاست، صحافت، قانون اور تاریخ کے طالب علموں کو پڑھانا چاہیے۔ لیکن پھر حالات بدلے۔ فائز عیسیٰ خبروں میں آئے۔ کبھی ان پر غیرآئینی طورسپریم کورٹ میں پہنچنے کا مقدمہ ہوا جو بعد میں خارج ہو گیا اور کبھی بنچ پر تنقید کرنے سے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بینچ سے ہی علحیدہ کر دیا۔ کہیں سے ایک گمنام صحافی وحید ڈوگر آیا اور احتساب کا نعرہ بلند کر کے اقتتدار تک پہنچے والی انقلابی انصافی حکومت کے قائد نے صدر مملکت عارف علوی کی مدد سے فائز عیسیٰ پر بے نامی جائیداوں اور منی لامڈرنگ کا الزام لگا کر سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجا۔

یاد رہے یہ وہی عارف علوی صاحب ہیں جہنوں نے 14 جون 2013 کو اپنے ٹویٹ کے ذریعے ’بلوچستان میں ایماندارنہ گورنر راج لگانے کے لئے‘ بلوچستان ہائی کورٹ کے سربراہ قاضی فائز عیسیٰ کو گورنر تعنیات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں اپوزیشن اور حکومت میں رہتے ہوئے پسند، ناپسند بدل جاتی ہے۔

مقدمہ لڑنے کے لئے اس وقت کے اٹارنی جنرل کپٹین (ر) انور منصور نے مورچہ سنبھالا لیکن وہ ججز کے تند و تیز سوالات سے گبھرا گئے اور مقدمے سے الگ ہو گئے۔ نئے آنے والے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے مقدمہ لڑنے سے معذرت کر لی۔ قرعہ انتخاب ایک مرتبہ پھر سابق وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم جہنوں نے یہ ریفرنس بنایا۔ ان کے ساتھ سابق لکھتے ہوئے احتمال رہتا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے جب تک تحریر مکمل ہو تب تک وہ پھر وزیر قانون ہوں۔ جی وہی بیرسٹر فروغ نسیم جو الطاف حسین کو نیلسن مینڈیلا اور پرویز مشرف کو امید کی آخری کرن کہتے تھے، جن کے بارے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کہہ چکے ہیں کہ وہ ہمارے کوٹے پر وزیر نہیں بنے۔

فروغ نسیم نے ایک بار پھر تحریک انصاف کی حکومت اور عدلیہ اور قوم کے وسیع تر مفاد میں دو ٹکے کی وزارت قانون سے استعفا دیا اور مقدمہ لڑنے سپریم کورٹ جا پہنچے۔ اس دوران انہوں نے قرآن کی آیت سے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کی مثالوں سے لے کر جبرالٹر کے جج، حتیٰ کہ زمانہ جہالت کی رسم ’ستی‘ کرنے کی مثال بھی دے ڈالی۔ ریفرنس کے دفاع میں انہوں نے ڈوگر جیسے گمنام تحقیقاتی صحافی کی خبر، ججز کی جاسوسی اور ایسٹ ریکوری یونٹ (اے آر یو) کی افادیت بھی بیان کی۔ لیکن کچھ بھی بنچ کے کسی ایک بھی جج کو مطمئن نہیں کر سکا۔

عدالت نے خود پیش ہو کر دیے گئے جسٹس فائز عیسیٰ کے پیغام کی روشنی میں ان کی اہلیہ کو ویڈیو لنک کے ذریعے سننے کی درخواست قبول کر لی۔ سرینہ کھوسو اہلیہ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی آمدن کے ذرائع اپنی نوکری اور خاندانی پس منظر کے تناظر میں بیان کرتے ہوئے ایف بی آر کی ٹیکس سلپس اور رقم باہر منتقل کرنے کی منی ٹریل دکھا دی، جس پر بنچ کے تمام ججز مطمن ہو گئے۔ اس موقع پر قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ ’’آپ نے مجھ سے اچھی وکالت کی‘‘، جس پر دس رکنی بینچ کے سربراہ اور آنے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا وکیل آپ کی تعریف کر رہا ہے۔

لیکن اس سارے معاملے میں اکیلے فائز عیسیٰ نے نہیں، ان کے خاندان نے بھی بہت کچھ برداشت کیا۔ ان کی اہلیہ اور بچوں نے جج صاحب کے کندھے سے کندھا ملا کے کمال استقامت کا ثبوت دیا۔ کیس کے مختصر فیصلے میں جہاں ریفرنس متفقہ طور پر ختم ہوا وہیں محصولات کا معاملہ منیر اے ملک کے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے سات تین سے ایف بی آر کو بھیجتے ہوئے 60 روز میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔

پاکستانی اس طرح کی انکوائری پانامہ مقدمہ میں دیکھ چکے ہیں جس کے بعد حالات یکسر بدل گئے تھے۔ قارئین کی یاد دہانی کے لئے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے خلاف بھی ریفرنس بھیجا گیا تھا جس میں وہ بچ گئے۔ پھر نومبر 2007 میں لگنے والی ایمرجنسی میں دیگر ججز بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوئے اور پھر بحال ہونے کے بعد از خود نوٹس کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے نو سال کے بعد بننے والی جمہوری حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا اور یہ سلسلہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی پر پہنچ کے بھی نہیں رکا۔

افتخار چودھری کے بعد جوڈیشل ایکٹوازم کچھ دیر رکا لیکن کچھ عرصہ بعد آنے والے ایک اور چیف جسٹس سابق نثار نے ایک بار پھر ازخود نوٹسز کا سلسل شروع کیا جس نے عدلیہ کو مزید شرمسار کیا۔ اس لئے ججز سے ڈر بھی لگتا ہے کہ وہ مقبولیت بڑھانے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اتنا جھومیے اور مٹھائیاں کھائیے، جتنی ٹویٹس اور بلاگ بعد میں ڈیلیٹ کر سکیں اور آج کھائی گئی مٹھائی کی کڑواہٹ کل برداشت کر سکیں۔

اب قاضی فائز عیسیٰ 2023 میں چیف جسٹس ہوں گے اور اسی سال عام انتخاب بھی ہونے ہیں۔ لیکن 2022 میں ’کسی اور‘ نے بھی جلوہ افروز ہونا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے قوم فیض یاب ہوتی ہے یا فائز۔ جو بھی ہوگا، اس کا فیصلہ تو مستقبل کرے گا۔ فیض احمد فیض سے معذرت کے ساتھ۔ ’کرونا سے بچ گئے تو ہم دیکھیں گے‘۔

اس سارے معاملے میں جس طرح سرینہ کھوسہ صاحبہ نے اپنے خاوند کی مشکل آسان کی، اس بہادری و جرات پر وہ داد کی مستحق ہیں۔ لیکن پیغام واضح ہے کہ کریز سے نکل کر شاٹ کھیلو گے تو پھر بولڈ بھی ہو سکتے ہو، کیچ بھی، اور سٹمپ بھی۔ لہٰذا احتیاط کرو اور وکٹ پر ٹھہرنا ہے تو سنبھل کے کھیلو۔