ایک ایسا ملک جہاں وزیر اعظم کو اپنے بارے میں ہی خبر نہیں ہوتی کہ وہ اگلی صبح اپنے عہدے پہ ہوگا بھی یا نہیں، وہاں وزیر اعظم کا یہ دعویٰ کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کا آئندہ پروگرام پاکستان کا آخری پروگرام ہوگا کافی امید افزا لگتا ہے۔ پاکستان اس وقت معاشی بدحالی مسائل سے نکلنے کے لئے IMF سے US$6 بلین سے US$8 بلین تک کے قرض کے لئے بات چیت کر رہا ہے۔ وزیراعظم نے مالی سال 2024-25 کے وفاقی بجٹ کے بعد اپنی پہلی تقریر میں اقتصادی خود کفالت کے لئے اپنے غیر متزلزل عزم کو اجاگر کیا۔
ان اقوام کا حوالہ دے کر جنہوں نے صرف ایک بار IMF سے مدد مانگی اور اپنے ملک کو ترقی پر گامزن کر لیا۔ وزیر اعظم نے ملک کی خودمختاری کے امکانات کی واضح تصویر پیش کی اور کہا کہ "ہم نے 24 سے 25 بار IMF کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے"۔ انہوں نے ثابت قدمی سے اعلان کیا، "میں آج بھی پُر اعتماد ہوں کہ اگر ہم اپنے پروگرام اور مقاصد میں پُرعزم رہے تو یہ پاکستان کے معاشی معاملات میں IMF کی مداخلتوں کا آخری باب ہو گا"۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں جوش کے ساتھ پاکستان کو معاشی طور پہ ایک مستحکم اور خوشحال ریاست بنانے کا عزم کیا۔
مالیاتی توازن کو برقرار رکھنے کے لئے انہوں نے ان تمام اداروں، وزارتوں اور دیگر محکموں کو ختم کرنے کا بھی عہد کیا جو کوئی مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے قومی خزانے پر بوجھ ثابت ہو رہے ہیں۔ انہوں نے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (PWD) کا حوالہ دیا، اور اسے بدعنوانی کے لئے "سب سے زیادہ بدنام" قرار دیا اوراس محکمے کو حاصل مراعات پر تنقید کی۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ صرف ان کی تنخواہیں 2 ارب روپے سالانہ سے زیادہ ہیں۔
انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ PWD کو مختلف وزارتوں اور محکموں سے ترقیاتی کاموں کے لئے کئی سو ارب روپے کے فنڈز ملتے ہیں اور افسوس کا اظہار کیا کہ اگر محکمے کے پاس ترقیاتی فنڈز کے لئے سو ارب روپے کا پول تھا تو 50 فیصد یا اس سے زیادہ کرپشن کی نظر ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے انہوں نے چند ماہ میں مثبت نتائج کا وعدہ کرتے ہوئے وزارتی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اس اقدام سے نہ صرف اربوں روپے کی بچت ہوگی بلکہ پاکستان خوشحالی کی راہ پر ایک اہم سنگ میل بھی ہوگا۔
مزید برآں، وزیر اعظم نے انکشاف کیا کہ دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کے لئے مصروف عمل ہے، اس کے علاوہ ادارے کے اندر ناکارہ افراد کو ہٹانے کا عزم رکھتے ہیں۔
تاہم، وزیر اعظم کا یہ دعویٰ ان کی حکومت کے اقدامات سے متصادم دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ بجٹ برائے مالی سال 2024-25 میں، سیکشن 3CCE کے مجوزہ اضافے کا مقصد کسٹمز ایکٹ، 1969 (IV کا 1969) کے اندر ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ (Directorate of Trade Based Money Laundering) قائم کرنا ہے۔ یہ نیا ڈائریکٹوریٹ جس میں ایک ڈائریکٹر جنرل اور متعدد ڈائریکٹرز، ایڈیشنل ڈائریکٹرز، ڈپٹی ڈائریکٹرز، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز اور دیگر افسران شامل ہیں، یہ اقدام قومی خزانے پر اضافی بوجھ ڈالتے ہوئے بظاہر افسر شاہی کو نوازنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
حکومت Trade Base Money Laundering کے انسداد کے لئے ڈائریکٹوریٹ بنانے کے بجائے قومی خزانے پر دباؤ ڈالے بغیر اس جرم کے انسداد کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کرے۔ حکومت کو غیر قانونی سرگرمیوں کے مواقع کو کم کرنے کے لئے لین دین کی شفافیت اور traceability کو یقینی بنانے کے لئے تجارتی عمل کی ڈیجیٹائزیشن سمیت سٹرٹیجک، ٹیکنالوجی پر مبنی اقدامات کا ایک سلسلہ نافذ کرنا چاہیے۔
بلاک چین ٹیکنالوجی کا استعمال جعلی تجارتی دستاویزات اور لین دین کے معلات کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ مزید برآں، AI اور مشین لرننگ کا استعمال کرتے ہوئے تجارتی نگرانی کے نظام کو آٹومیشن کے ذریعے مشکوک طرز کا پتہ لگانے اور منی لانڈرنگ کی ممکنہ سرگرمیوں کی نشاندہی کرنے میں مدد کرے گا۔
الیکٹرانک پلیٹ فارمز کے ذریعے کسٹم کے طریقہ کار کو بہتر کرنے سے انسانی مداخلت اور پیچیدگیاں کم ہوں گی۔ اس کے ساتھ بہترین ریگولیٹری فریم ورک کا نفاذ جو کہ ٹیکنالوجی کے استعمال کو موثر بنائے۔ ان طریقوں سے ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا کر، حکومت مالیاتی ذمہ داری کو یقینی بناتے ہوئے تجارت پر مبنی منی لانڈرنگ کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کر سکتی ہے۔ تجارت پر مبنی منی لانڈرنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے مالیاتی شمولیت اور معیشت کی مکمل دستاویزات اہم ہیں۔
زیادہ سے زیادہ افراد اور کاروباری اداروں کو باضابطہ بینکنگ سسٹم میں ضم کرنے سے، مالی شمولیت شفافیت اور لین دین کی نگرانی کو یقینی بناتی ہے، اورغیر قانونی سرگرمیوں کے مواقع کو کم کرتی ہے۔ لہٰذا، حکومت کو documentation of economy کے لئے ایک جامع پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تجارتی سرگرمیوں کی درست نگرانی اور ان کو منظم کیا جا سکے، جس سے منی لانڈرنگ کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ موجودہ انسانی وسائل کے ساتھ ان اقدامات کی مؤثر طریقے سے نگرانی کی جا سکتی ہے۔ اضافی ڈائریکٹوریٹ بنانے سے خزانے پر غیر ضروری بوجھ پڑے گا۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں حکومت کو درپیش معاشی چیلنجز پر بھی روشنی ڈالی اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے اپنے پہلے سو دنوں کے دوران حاصل ہونے والی کامیابیوں کو شیئر کیا۔ انہوں نے مہنگائی کو بہتر کرنے کا کریڈٹ لیا جو 38 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد ہو گئی اور پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہو کر 20.5 فیصد ہو گیا۔ انہوں نے ریلیف فراہم کرنے، مہنگائی میں کمی، سرمایہ کاری کو بڑھانے اور نوجوانوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کے مواقع پیدا کرنے کے لئے مزید اقدامات کا وعدہ کیا۔ انہوں نے اپنے بین الاقوامی دوروں کے نتائج سے بھی آگاہ کیا اور غیر ملکی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے اور سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لئے ایک نظام قائم کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے چین کے ساتھ مل کر 300,000 پاکستانیوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تربیت دینے اور ملک کے آئی ٹی انفراسٹرکچر کو وسعت دینے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔
شہباز شریف نے اس تفاوت کی مذمت کی جہاں اشرافیہ شاہانہ زندگی گزارتی ہے جب کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ ہے۔ تاہم، وزیر اعظم نے بظاہر اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ ان کے وزیر خزانہ نے موجودہ بجٹ 2024 میں تنخواہ دار طبقے پر کس طرح بوجھ ڈالا ہے۔ بھاری ٹیکس والے طبقوں پر بوجھ کم کرنے کے دعوؤں کے باوجود، یہ محض بیان بازی ثابت ہوئی ہے، کیونکہ انہوں نے پہلے سے ٹیکس زدہ طبقے کو نچوڑنے کے روایتی طریقے کا انتخاب کیا ہے۔
آمدنی میں اضافے کے حصول میں، غیر تنخواہ دار افراد اور تنخواہ دار افراد کے لئے ٹیکس کی شرح پر نظر ثانی کی گئی ہے۔ 600,000 روپے سالانہ کمانے والے تنخواہ دار افراد کے لئے ٹیکس پر چھوٹ ہے۔ جب کہ اس سے زیادہ کمانے کے لئے اب ٹیکس کے پانچ سلیب ہیں، جو کہ 5% سے 35% تک ہیں، اضافی ٹیکس کا بوجھ ڈالتے ہیں۔
اسی طرح غیر تنخواہ دار افراد کے لئے زیادہ سے زیادہ ٹیکس سلیب کو بڑھا کر 45% کر دیا گیا ہے، جب کہ کارپوریٹ اداروں کو پہلے سے ہی 39% کی اعلیٰ ٹیکس کی شرح کا سامنا ہے، جس میں 29% کارپوریٹ ٹیکس اور آمدنی کی سطح پر مبنی 10% سپر ٹیکس شامل ہے۔
تنخواہ دار طبقے اور چھوٹے کاروباروں کے لئے ٹیکسوں میں نمایاں اضافہ عوامی قوت خرید کو کم کرنے اور معاشی ترقی کی رفتار میں نمایاں کمی کرے گا۔ اگرچہ برآمد کنندگان کو معیاری شرحوں پر ٹیکس لگانے کی حکومت کی تجویز ایک درست فیصلہ ہے، کیونکہ امتیازی شرحوں نے ایک متوازی معیشت کو جنم دیا ہے، وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں بظاہر اپنی خارجہ پالیسی کے ڈھانچے کو شیئر کرنے کو نظر انداز کیا اور پڑوسی ممالک جن کا رہن سہن اور کلچر ہمارے جیسا ہے اور برآمدات کو بڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کو واضح نہیں کیا۔۔ چین کے ساتھ تجارت بڑھانے کے لئے حکومت کی حکمت عملی یا پاکستانی برآمد کنندگان اور سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے موجودہ تجارتی معاہدوں میں ترمیم کے منصوبے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
پاکستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خارجہ پالیسی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، تجارت کو فروغ دینے اور جی ڈی پی کی نمو کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان گذشتہ ایک دہائی سے خارجہ پالیسی کے محاذوں پر جدوجہد کر رہا ہے۔ یہ ہمارے لئے موزوں وقت ہے کہ ہم ایک تجربہ کار وزیر خارجہ کا تقرر کریں اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور ہمسایہ اور دوست ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے ساتھ ایک دانشمندانہ خارجہ پالیسی وضع کریں۔ موجودہ غیر فعال خارجہ پالیسی وزیر اعظم کو اس مقصد کے حصول میں مدد نہیں دے گی جس کا انہوں نے اپنی تقریر میں وعدہ کیا ہے۔