کرونا وائرس کی وباء پھوٹنے کے بعد سے اب تک 70 ہزار پاکستانی تفتان بارڈر کے راستے ایران سے واپس ملک میں داخل ہو چکے ہیں جن میں سے صرف 5 ہزار کی تھرمل سکیننگ یعنی ابتدائی تشخیصی چیک اپ ہوا۔ اب معاملے پر ایک انٹیلیجنس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی وباء ایران تک پہنچ جانے کے بعد جب بلوچستان میں پاک ایران سرحد پر واقع تفتان کی گزر گاہ سے وطن لوٹنے والے پاکستانیوں کا سیلاب امڈ آیا تو بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت اور وزارت خارجہ سے فوری رابطہ کرکے درخواست کی کہ ایران کی حکومت سے درخواست کی جائے کہ وہ اس طرح کسی ابتدائی چیک اپ یا ٹیسٹ کے بغیر ان پاکستانیوں کو تفتان بارڈر سے پاکستان میں نہ دھکیلے جو عراق اور ایران میں مقدس مقامات کی زیارت کے بعد وطن لوٹ رہے ہیں۔
مگر جب وفاقی حکومت اور وزارت خارجہ نے صوبائی حکومت کی درخواست پر کوئی قدم نہیں اٹھایا تو بلوچستان حکومت نے براہ راست پاکستان میں متعین ایرانی سفیر سے ملاقات کرکے درخواست کی کہ حکومت ایران اس سنگین انسانی پہلو پر توجہ دے اور خاطر خواہ اقدامات کرے لیکن ایرانی سفیر نے بھی اس سلسلے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بحران کی اس گھڑی میں چین نے وہاں موجود پاکستانیوں کا مکمل علاج معالجہ کیا اور اپنے شہریوں کی طرح خیال رکھا لیکن ایران جیسے ” برادر اسلامی ملک ” کا اس ضمن میں رویہ اور وہاں موجود پاکستانی شہریوں کے ساتھ سلوک انتہائی افسوسناک ہے ، اور وہ بھی اپنے ہم مسلک مسلمانوں کے ساتھ۔
خفیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایرانی حکومت کی بے حسی کی بھینٹ انڈیا سے آئے درجنوں زائرین بھی چڑھ چکے ہیں جو لکھنئو اور دیگر شہروں سے زیارتوں کے لئے آئے ہوئے تھے ، انڈیا کے درجنوں مسلمان علاج معالجے کی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے ایران کے اندر ہی مر گئے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے اس پر کوئی آواز اٹھائی نہ کوئی احتجاج کیا۔
اس خصوصی رپورٹ میں جو ” تفتان” کے المیہ کے تناظر میں تیار کی گئی ہے ، کہا گیا ہے کہ ایرانی حکومت کا یہ المناک سلوک جن "مہمانوں” کے ساتھ روا رکھا گیا ہے وہ نہ صرف ہمسایہ ممالک سے آئے ہوئے مسلمان تھے بلکہ ہم مسلک بھی تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس ایران میں پہنچ جانے کے بعد جب تفتان کے راستے وطن واپس آنے والوں کا سیلاب امڈ آیا تب پتہ چلا کہ کتنی بڑی تعداد میں پاکستانی زیارتوں کے لئے گئے ہوئے تھے لیکن حکومت ایران نے اس سیلاب کو اپنی حدود کے اندر کنٹرول کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ قدرے بے رحمی کے ساتھ انہیں پاکستان کے اندر دھکیلا گیا۔
اعلیٰ سطحی اس رپورٹ میں اس حساس بارڈر پر تعینات چند افسران اور اہلکاروں کی جانب سے مسلکی بنیادوں پر ہونے والے” تعاون ” کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جو کہ اتنی بڑی تعداد میں زیارتوں سے واپس وطن آنے والے پاکستانیوں کا کسی سکیننگ کے بغیر تفتان بارڈر سے نکل جانا ممکن بناتی ہے۔ اور یہی وجہ بتائی گئی ہے کہ جس سے کرونا کے مشتبہ افراد ” قرنطینہ” کی پابندی کو بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست گھروں کو چلے جانے کے باعث پورے ملک میں پھیل چکے ہیں”
اعلیٰ ترین خفیہ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ یہ ایک سنگین انسانی مسئلہ اور قومی بحران سے جڑا معاملہ ہے ، لہٰذا پاک ایران سرحد پر deployment کے حوالے سے ضروری تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں۔