داتا دربار خودکش حملہ، مبینہ سہولت کار گرفتار

پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی اور انٹیلی جنس بیورو نے مشترکہ آپریشن کرتے ہوئے داتا دربار کے باہر ہونے والے خودکش بم دھماکے کے مبینہ سہولت کار کو گرفتار کر لیا ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چارسدہ کے علاقے شبقدر کے بہرام خان کے بیٹے محسن خان کو حراست میں لیا جس نے دوران تفتیش یہ انکشاف کیا کہ خیبرپختونخوا کے ضلع مہمند کے رہائشی طیب اللہ عرف راکی نے افغان شہری صادق اللہ مہمند کے ساتھ اس سے ملاقات کی تھی جو چھ مئی کو طورخم بارڈر کے راستے افغانستان سے پاکستان آیا تھا اور بعدازاں  سب لاہور آ گئے۔

یاد رہے کہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں آٹھ مئی کو ہونے والے خودکش بم دھماکے میں ایلیٹ فورس کے پانچ اہل کاروں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

تفتیش سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دھماکے سے قبل سہولت کار محسن، ہینڈلر اور خودکش بمبار بھاٹی گیٹ کے علاقے میں ایک ہی مکان میں رہائش پذیر تھے اور ان تینوں کا تعلق تحریک طالبان پاکستان کی شاخ حزب الاحرار سے تھا جسں نے دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔



واضح رہے کہ دھماکے کے فوراً بعد محکمہ انسداد دہشت گردی اور انٹیلی جنس بیورو کے حکام پر مشتمل ایک مشترکہ ٹیم تشکیل دے دی گئی تھی جنہوں نے بمبار کی شناخت، دھماکہ خیز مواد کی نوعیت اور مقدار سے متعلق تحقیقات کے لیے جائے وقوعہ سے سائنسی بنیادوں پر شواہد جمع کیے تھے۔

تفتیشی ٹیم نے بم دھماکے کے متاثرین، عینی شاہدین اور مشتبہ افراد کے انٹرویو لیے جب کہ تفتیش کاروں نے ڈیجیٹل فارنزک پر بھی توجہ دی۔

دریں اثناء، لاہور سمیت ملک کے مختلف حصوں اور بالخصوص داتا دربار کے علاقے میں ہیومن انٹیلی جنس کی سرگرمیوں میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔

حکام نے انکشاف کیا ہے کہ محسن خان بھاٹی گیٹ کے علاقے میں کرایے کے ایک کمرے میں رہ رہا تھا جو اسے نورزیب نامی شخص نے لے کر دیا تھا۔

محسن خان کی چند برس قبل سعودی عرب میں قیام کے دوران طیب اللہ نامی شخص نے ذہن سازی کی تھی۔ محسن نے انکشاف کیا، آٹھ مئی کو طیب اللہ ہی خودکش بمبار کو دھماکے کے مقام کے قریب لے کر گیا تھا۔



تفتیشی اداروں نے محسن سے بڑی تعداد میں دھماکہ خیز مواد اور دو ایم پی تھری پلیئرز بھی برآمد کیے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ خودکش جیکٹ اور دھماکہ خیز مواد ایم پی 3 پلیئرز میں چھپا کر لایا گیا تھا تاکہ پکڑے جانے کی صورت میں بچنا ممکن ہو سکے۔

شواہد سے بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ ہینڈلر طیب اللہ دھماکے سے کچھ دیر بعد ہی جائے وقوعہ سے فرار ہو گیا تھا جس کی گرفتاری کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک بھر میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے، خودکش بم دھماکے کی اس کارروائی کو انتہائی مختصر وقت میں حل کرنا محکمہ انسداد دہشت گردی اور انٹیلی جنس بیورو کی ایک بڑی کامیابی ہے۔