داتا دربار خودکش حملہ، خفیہ اداروں اور پولیس کی مختلف پہلوئوں سے تفتیش

صوبائی دارالحکومت لاہور میں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار کے باہر ایلیٹ فورس کی گاڑی پر ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 11 ہو گئی ہے جب کہ خفیہ ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے اس اندوہناک سانحہ کے ماسٹرمائند تک پہنچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں جنہوں نے اس وقت اپنی تمام تر توجہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے تین بڑے دہشت گرد گروہوں پر مرکوز کر رکھی ہے۔

یاد رہے کہ داتا دربار بم دھماکے کی ذمہ داری حزب الاحرار نامی تنظیم نے قبول کی ہے تاہم اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی۔

انگریزی کے موقر اخبار ’’ڈان‘‘ نے ایک سینئر پولیس افسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تحریک طالبان پاکستان کی تین شاخوں اور ان کے سہولت کاروں کا سراغ لگانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، اس حوالے سے خاص توجہ جماعت الاحرار پر ہے جس نے ان بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔



پولیس افسر کا مزید کہنا تھا، قانون نافذ کرنے والے ادارے محدود وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے ان سہولت کاروں کو تلاش کر رہے ہیں جنہوں نے خودکش بمبار کو مزار پر اتارا تھا۔

محکمہَ انسداد دہشت گردی پنجاب نے غیز فورس، جماعت الاحرار اور حزب الاحرار کے ریکارڈ کی چانج پڑتال شروع کر دی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حزب الاحرار دراصل جماعت الاحرار سے الگ ہونے والا گروہ ہے جس کی قیادت افغان عسکریت پسند مقرم شاہ کر رہا تھا۔

حزب الاحرار کچھ اندرونی اختلافات کے باعث جماعت الاحرار سے الگ ہو گئی تھی جس کے بعد اس نے بنیادی طور پر الگ سے عسکریت پسند سرگرمیاں جاری رکھیں اور پاکستان کے مختلف حصوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا۔

واضح رہے کہ تحقیقاتی ادارے کسی بھی امکان کو نظرانداز نہیں کر رہے جن میں دہشت گردی کی اس سرگرمی میں داعش کا ملوث ہونا بھی شامل ہو سکتا ہے۔



ذرائع کے مطابق، اس دھماکے کی تحقیق بھی 2017 میں مال روڈ پر ہونے والے بم دھماکے کی طرز پر ہی کی جا رہی ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سہولت کار کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہے تھے جس نے دھماکے سے چند منٹ قبل خودکش بمبار کو ہدف کے قریب اتارا تھا۔

واضح رہے کہ یہ بم دھماکہ اس وقت ہوا تھا جب مال روڈ پر پولیس افسر اور احتجاج کرنے والے تاجروں کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے، دہشت گردی کی اس کارروائی میں دو ڈی آئی جیز اور پولیس اہل کاروں سمیت 14 افراد شہید ہو گئے تھے۔

حکام نے محض 72 گھنٹوں میں سہولت کار انوارالحق کو لاہور کے علاقے آر اے بازار کے ایک کرایے کے گھر سے گرفتار کر لیا تھا جس کے بعد جماعت الاحرار کے 13 مزید سہولت کار گرفتار کر لیے گئے اور یوں اس گروپ کا قلع قمع کر دیا گیا۔

سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ حزب الاحرار نے دہشت گردی کی آخری بڑی کارروائی اٹک میں 2018 میں کی تھی جس میں سکیورٹی ایجنسی کے اہل کاروں کی ایک بس پر فائرنگ اور بم حملہ کیا گیا تھا۔



ذرائع کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے حکام اٹک دہشت گردی میں گرفتار کیے جانے والے حزب الاحرار کے عسکریت پسندوں سے داتا دربار بم دھماکے سے متعلق تفتیش کر سکتے ہیں۔