کتنے افسوس کی بات ہے۔ اپنی عیدی جمع کرنے کے لیے حکومت نے دکانیں کھلوا دیں۔ یہ فیصلہ غریب کے لیے نہیں ہوا۔ اور اب تو ٹرین بھی چلنا شروع ہو گئی ہیں۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ تنخواہ دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ یعنی جن کو ہم اپنے مسائل حل کرنے کے لیے حکمران بناتے ہیں وہ ہم سے اپنے مسائل درست کروا رہے ہیں۔
یہ سب اپنی جگہ لیکن یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ دنیا کی کوئی بھی حکومت کرونا وائرس جیسی آفت کے لیے غلطی سے مبرا حکمت عملی نہیں بنا سکتی۔ اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے جو اس وبا پہ قابو پانےمیں سب سے زیادہ ناکام رہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جہاں سائنس کے بہت سارے شعبوں میں انسان نے ترقی کی ہے وہیں کئی شعبہ جات میں غفلت بھی برتی ہے۔ کرونا پہ بنیادی طور پر قابو اس لیے نہیں پایا جا سکا کہ قوم پرستی کی آڑ میں ترقی یافتہ ممالک کا سارا زور ہتھیار بنانے اور معیشت کو مضبوط کرنے میں لگایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ترقی پزیر ممالک کی بھی ترجیحات یہی ہیں۔ پاکستان، انڈیا، ایران اور نارتھ کوریا اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ چند ایک ممالک ایسے بھی ہیں جو ایٹمی طاقت بننے کی سکت رکھتے ہیں لیکن انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنی توانائی ان کاموں میں نہیں لگائیں گے جیسا کہ جاپان، ساؤتھ افریقہ اور جرمنی۔
اگر لاک ڈاؤن نام کی کوئی چیز تھی بھی تو یہ عام طور پہ لوگوں نے رضاکارانہ طور پہ خود سے اپنے آپ کو محدود کر رکھا تھا۔ حکومت نے محض دکانیں بند رکھیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے کوئی خاص کام کاج نہیں کیا۔ حکومت محض حکم دیتی رہی یا تبصرہ کرتی رہی۔ پچھلے دن خود ریلوے منسٹر شیخ رشید، عبدالمالک سے کہہ رہے تھے کہ لاک ڈاؤن تھا کب؟ لوگ تو پولیس کو رشوت دے کر کام چلا رہے تھے۔
یہ بات جھوٹ سے کم نہیں ہے۔ حکومت کی چاہے جو بھی پالیسی ہو انتظامیہ اور پولیس نے مل کر کافی حد تک لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا ہونے سے روکے رکھا تھا۔ ہوٹل عمومی طور پر بند تھے اور 4 بجے کے بعد خریداری تقریباً ناممکن تھی۔ یہ حقائق عیاں تب ہوئے جب حکومت نے عین عید سے پہلے لاک ڈاؤن ختم کر دیا اور عوام کا جمِ غفیر سڑکوں پہ نکل آیا۔ ساتھ ہی ساتھ سپریم کورٹ نے دو دن کے لیے چھٹی اور پانچ دن کام کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا تو صحیح بنیادوں پر ہے لیکن یہ ان فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اور چونکہ میڈیا فیصلے کا صرف ایک حصہ چن کے لوگوں کو سامنے دکھاتا ہے، اور وہ ہمیشہ بغیر سیاق و سباق سے لیا جاتا ہے۔
اب تحریک انصاف نے سارا ملبہ سپریم کورٹ پر ڈال دیا ہے کہ دیکھا! ہم تو شروع سے لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وزیراعظم پاکستان کچھ غلط نہیں کہتے کہ ان کو غریب کی فکر ہے اور چونکہ اس ملک کا ایک بہت بڑا حصہ غریب ہے اس لیے حکومت کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کرنا ممکن نہیں تھا۔ تو پھر کیا کیا جائے؟
وہ غریب جس کی وزیراعظم بات کر رہے ہیں وہ تو کرونا کی آمد سے پہلے بھی غرق تھا اور اب بھی غرق ہے۔ اصل میں وزیراعظم اس طبقے کی بات کر رہے ہیں جو پرائیویٹ سیکٹر میں تنخواہ دار طبقہ ہے۔ اور وہ ٹھیک کہتے ہیں کہ اگر لاک ڈاؤن لمبا کیا گیا تو ان کو تنخواہیں نہیں ملیں گی اور شاید ان کو نوکری سے بھی نکال دیا جائے۔ تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟ حکومت قدم جو بھی لے خطرے کی بات یہ ہے کہ یہ حکومت کسی بھی چیز کی مکلمل ذمہ داری نہیں لیتی بلکہ تاویلیں دینے لگتی ہے۔ اور جب کوئی شخص یا ادارہ کسی معاملے کی مکلمل ذمہ داری نہ لے تو ان کی فیصلہ سازی میں وہی الجھاؤ نظر آتا ہے جو تحریک انصاف کی فیصلہ سازی میں نظر آ رہا ہے۔
اس میں سب سے نمایاں مثال وہ دن ہے جب وزیراعظم نے کہا کہ انہیں تو ٹی وی سے پتا چلا کہ روپے کی قدر اس قدر کم ہو گئی ہے۔ ان حالات میں بھی حکومتِ وقت کی ساری توجہ زرداری اور نواز شریف اور اس نظام پہ مکمل طور پر قابض ہونے پر ہے۔ یعنی کوئی خاص پروا نہیں ہے کہ لوگ مر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر حضرات کے لیے بھی کوئی خاص انتظام نہیں کیا گیا جن کے بغیر اس وبا سے لڑنا ناممکن ہے۔
خیبر پختونخواہ میں صرف پشاور ہی ایسا شہر ہے جہاں بہترین ڈاکٹر اور اچھے ہسپتال ہیں۔ ان میں سے ایک ہسپتال بھی ایسا نہیں ہے جو تحریک انصاف نے بنایا حالانکہ وہ 7 سال سے یہاں حکومت کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ پورے صوبے کے ہسپتال چاہے وہ پرائیویٹ ہوں یا سرکاری، اتنہائی اوسط درجے کے ہیں۔ تو تحریک انصاف کا یہ کہنا کہ وہ باقیوں سے مختلف اور بہتر ہے محض ایک جملہ ہے، جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔
اب تحریک انصاف کی توپوں کا رخ سندھ کی جانب ہے۔ صوبہ سندھ نے کرونا کی آمد پر اپنے تمام دستیاب ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اقدام لیے اور چیف منسٹر کی ناصرف عالمی میڈیا نے تعریف کی بلکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن نے بھی تعریف کی۔ ان اقدامات کو جاری رکھنے کے لیے مزید ذرائع اور رقم درکار تھی جو کہ صرف مرکز مہیا کر سکتا ہے۔ اور چونکہ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں تحریک انصاف کی حکومت نہیں ہے اس لیے مرکزی حکومت پیسے دینے میں مسائل کھڑے کر رہی ہے۔ باقی صوبوں کو پیسے نہ بھی ملیں تو کوئی خاص مسئلہ نہیں ہو گا۔
کبھی کبھی مجھے ایسے لگتا ہے کہ آج جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں اس کے ذمہ دار بھی یہ خود ہی ہیں۔ جب نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت کیا کہ اب سے وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کے ایک دوسرے کی حکومت نہیں گرائیں گے تب سے خان صاحب کو تیار کرنا شروع کر دیا گیا۔ پھر آصف علی زرداری نے اگلا قدم اٹھایا اور اٹھارہویں ترمیم آئی جس کے تحت کئی شعبہ جات بشمول تعلیم اور صحت صوبوں کو دے دیے گئے اور صوبوں کو ملنے والی رقم زیادہ ہو گئی۔ یعنی نظام کو صوبائی خودمختاری کی جانب دھکیلا جا رہا تھا۔ اور جیسے جیسے صوبے خود مختار ہوتے جاتے ویسے ویسے اسٹیبلشمنٹ کے لیے سیاسی پارٹیوں کو کنٹرول میں رکھنا مشکل ہوتا جاتا اور ہو چکا تھا۔
اب تحریک انصاف بحکمِ سیاسی الہیٰ واپس نظام کو اس جانب لے کر جارہی ہے کہ جہاں ایک ریموٹ کنٹرول سے سب کچھ اوپر نیچے کیا جا سکے۔ چونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی ابھی بھی اچھی خاصی گرفت ہے اس لیے مرکز ان کے پیسے کم یا بند کر کے کسی طرح پیپلز پارٹی کو نیست ونابود کرنا چاہتا ہے۔ مگر کیا یہ ان چیزوں کا وقت ہے؟ ایسا کرنے سے نقصان کس کا ہو گا؟ سندھ میں رہنے والے لوگوں کا۔ کیا وہاں جہاں پسندیدہ لوگوں کی حکومت نہ ہو وہاں کے لوگوں کے ساتھ ریاست یہ برتاؤ کرے گی؟ سیاست کرنے کے لیے بہت وقت پڑا ہے لیکن حکومتِ وقت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کرونا وائرس کو لے کے کوئی واضح حکمت عملی نہیں بنائے گی سوائے چندہ مانگنے کے اور لوگوں کر مرنے کے لیے چھوڑنے کے۔
ایک تماشہ لگا ہوا ہے جس میں روزانہ وزیراعظم کو ارطغرل اور حزبِ اختلاف کو ابلیس کے کردار سے نوازا جاتا ہے۔ ڈرامے کی ہر قسط میں وہی کردار ہیں اور وہی کہانی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ خان صاحب کے پاس بہترین موقع ہے کہ کرونا کے مسئلے کو بھرپور توجہ دے کر یہ ثابت کر دیں کہ ان میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ اگر وہ محض تاویلیں دیتے رہے کہ مجھے غریب کی فکر ہے وغیرہ وغیرہ، تو شاید پھر تاویلیں ہی دیتے رہ جائیں گے۔ اگر واقعی میں غریب کی فکر ہے تو ڈھونڈیں اس غریب کو اور اس تک روٹی پہنچائیں۔ اس کو بے یار و مدد گار نہ چھوڑیں۔