لندن پلان سے متعلق مبشر لقمان درست کہہ رہے ہیں۔ لندن کے جس گھر میں عمران خان، طاہر القادری، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الہیٰ، مبشر لقمان اور اس وقت کے دو حاضر سروس فوجی افسروں کے مابین ملاقات ہوئی، میں اسی عمارت میں موجود تھا اور میرا آمنا سامنا ان حضرات سے ہو گیا تھا۔ اس کے بعد میٹنگ میں شامل فوجی افسر نے مجھے فون کر کے دھمکی دی تھی کہ اس ملاقات کی خبر اگر سامنے آئی تو جیو نیوز اور تمہارے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ یہ کہنا ہے سینئر صحافی مرتضیٰ علی شاہ کا۔
جیو نیوز کے پروگرام 'رپورٹ کارڈ' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2014 میں ڈاکٹر طاہر القادری نے لندن میں اپنے گھر پر ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ نواز شریف حکومت کے خلاف تحریک چلانے پاکستان جا رہے ہیں۔ اس کے بعد اچانک یہ خبر سامنے آئی کہ عمران خان بھی لندن آ رہے ہیں جبکہ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہیٰ پہلے سے ہی لندن میں موجود تھے۔ حلیم عادل شیخ بھی چوہدری برادران کے ہمراہ تھے جو اس وقت ق لیگ کا حصہ تھے۔ یہ غالباً جون یا جولائی 2014 کی بات ہے۔ ان دنوں عمران خان کے پاس ایک برطانوی نمبر چل رہا تھا۔ میرا ان سے رابطہ ہوا تھا اور تب انہوں نے مجھے انٹرویو بھی دیا تھا۔
انہی دنوں میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین پر منی لانڈرنگ کا کیس چل رہا تھا جس کی رپورٹنگ میں کر رہا تھا اور اس کیس کے مرکزی کردار سرفراز مرچنٹ کا اپارٹمنٹ اسی عمارت میں تھا جہاں یہ ' لندن پلان' والی میٹنگ ہوئی تھی۔ ایک شام سرفراز مرچنٹ کی دعوت پر میں اس کے گھر میں موجود تھا۔ رات گئے جب میں باہر نکلا تو میں نے خود دیکھا کہ عمران خان، طاہر القادری، چوہدری برادران، مبشر لقمان اور اس وقت کے دو حاضر سروس آرمی افسر وہاں موجود تھے۔ میں ان کے نام نہیں لوں گا لیکن آپ لوگ جانتے ہیں کہ وہ کون تھے۔ ہم عمارت کی ایک ہی منزل پر تھے اور آمنا سامنا ہونے پر ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ ان حضرات کو یہ خدشہ ہوا کہ میں یہ خبر رپورٹ کر دوں گا۔ میں نکل گیا تو آدھے گھنٹے بعد مجھے ان افسر کی کال آئی کہ آپ نے اس سے متعلق کوئی رپورٹ نہیں فائل کرنی۔ آپ کو پتہ ہے کہ ان دنوں جیو کے حالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں اور اگر آپ نے رپورٹ کیا تو حالات مزید خراب ہوں گے۔
یہ وہ وقت تھا جب سینئر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور 70، 80 فیصد پاکستان میں جیو کی نشریات بند تھیں۔ میٹنگ میں شامل فوجی افسر نے مجھے بہت پیار سے دھمکی دی تھی کہ آپ میرے دوست ہیں لیکن میرے باس نے کہا ہے کہ یہ بات صرف آپ کو پتہ ہے اور اگر یہ بات نکلی تو جیو کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ دیکھ لیں کہ آپ نے ادارے کو بچانا ہے یا یہ خبر فائل کرنی ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
مرتضیٰ علی شاہ کا کہنا تھا مبشر لقمان درست کہہ رہے ہیں کہ لندن کے مہنگے ترین ریسٹورنٹ میں کھانے کا بل انہوں نے ادا کیا تھا۔ مبشر لقمان اس سارے منصوبے میں بہت اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ وہ طاہرالقادری کے بھی بہت قریبی تھے اور ان کے لندن کے ایک کنونشن کے چیف گیسٹ بھی مبشر لقمان تھے۔ تب پی ٹی آئی کے ایک ذریعے سے مجھے علم ہوا تھا کہ لندن میں یہ میٹنگ بھی مبشر لقمان نے کروائی ہے۔ مبشر لقمان کو پاکستان سے کالز آرہی تھیں اور اس پروجیکٹ کے انجینئرز انہیں کہہ رہے تھے کہ جلدی سے چھٹیاں ختم کر کے واپس آ جائیں کیونکہ نواز شریف کے خلاف کسانوں کی تحریک چل رہی ہے تو آپ واپس آ کر اس کو زیادہ کوریج دیں۔ انقلاب کا وقت آ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں؛ لندن پلان؛ 'جنرل ظہیر نے ملک ریاض کو نواز شریف سے استعفیٰ مانگنے بھیجا'
اس دوران زلفی بخاری کے سعودی سفارت خانے کے قریب واقع دفتر میں بھی ایک میٹنگ ہوئی۔ ایک میٹنگ پارک لین میں ہوئی۔ ایک میٹنگ کسی اور جگہ پر ہوئی جہاں مبشر لقمان نہیں تھے۔ اس میٹنگ کے بارے میں پی ٹی آئی کے ایک رکن نے ہمیں بتایا تھا۔ اس حوالے سے ہم نے رپورٹ بھی کیا اور زلفی بخاری کے آفس والی فوٹیج بھی چلائی تھی۔ لہٰذا لندن پلان والی بات بالکل حقیقت ہے۔
طاہرالقادری جب پاکستان جا رہے تھے تو ایک دوست صحافی جو ایک اور پرائیویٹ ٹی وی چینل میں کام کر رہے تھے، اسے ان کی چینل انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا کہ صحافیوں کو اکٹھا کریں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اس تحریک کی کوریج کے لیے اتنے لوگوں کو لے کر جا رہے ہیں لیکن مجھے نہیں لے جا رہے تو دوست صحافی نے مجھے بتایا کہ خصوصی طور پر کہا گیا ہے کہ تمہیں نہیں لے کر جانا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک عظیم کام ہونے جا رہا ہے اور تم لوگ اس وقت سپائلر کا کردار ادا کرو گے۔
مرتضیٰ علی شاہ نے بتایا کہ میری قادری صاحب سے ایئرپورٹ پر میٹنگ ہوئی۔ میں نے ان سے بھی پوچھا کہ مجھے کیوں نہیں لے کر جا رہے؟ انہوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ کے دو حصے ہیں؛ ایک پاکستان میں اور ایک برطانیہ میں، تم یہاں پر سنبھالو اور ان کو میں پاکستان لے کر جاتا ہوں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہ دھرنا ختم ہوا تو قادری صاحب نے لندن واپس آ کر ہمیں مکمل سٹوری سنائی کہ ان کے ساتھ کتنا بڑا ہینڈ ہو گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 3 ہفتے اسلام آباد میں گزارنے کے بعد ہی مجھے سمجھ آ گئی تھی۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں کہا کہ پی ٹی وی کی طرف مارچ کریں، ہم نے کیا۔ ہنگامہ کریں، ہم نے کیا۔ جب ہم نے گیم اٹھا دی تو انہوں نے ہمارے فون سننے ہی بند کر دیے۔ بہت انتظار کیا اور جب دیکھا کہ کوئی فون نہیں اٹھا رہا تو میری بس ہو گئی کیونکہ دھرنے کا سارا خرچ میری جیب سے جا رہا تھا۔ پی ٹی آئی والے کھانا بھی میرے پاس سے کھا رہے تھے۔ لوگ بھی میرے مارے جا رہے تھے۔ پی ٹی آئی والے تو کچھ بھی نہیں کر رہے تھے لہٰذا میں نے کہہ دیا کہ میرے پاس مزید مزید پیسے نہیں ہیں۔
اس دھرنے کے ہینڈلرز نے طاہرالقادری سے کہا کہ آپ عمران خان کی خاطر تھوڑے دن مزید رک جائیں۔ انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ دھرنے کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکلے گا۔ نواز شریف بہت جلد استعفیٰ دے دیں گے لہٰذا آپ جلدی نہ کریں۔ 3 ہفتوں کے بعد قادری صاحب نے ہینڈلرز سے کہا کہ میں آپ کی اور عمران خان کی عزت کی وجہ سے بیٹھ جاتا ہوں لیکن آپ نے مجھے دھوکا دیا اور میرا دل توڑ دیا ہے۔ آپ نے جو وعدے کیے تھے کہ ایئرپورٹ تک پہنچتے ہی کچھ ہو جائے گا، پہلے ہفتے میں ہو جائے گا۔ 3 ہفتے گزر گئے، ایک ماہ ہو گیا لیکن کچھ نہیں ہوا اور اب تو آپ لوگ فون بھی نہیں اٹھاتے۔ قادری صاحب نے بتایا کہ اس کے بعد میں جتنا عرصہ بھی دھرنے میں بیٹھا، اپنی عزت بچانے کے لیے بیٹھا تھا۔ بعد میں جب فنڈنگ کا مسئلہ ہوا تو وہ دھرنے کو چھوڑ کر لاہور چلے گئے۔ لاہور سے لندن اور پھر کینیڈا پہنچ گئے۔
اس دوران جنرل ظہیر الاسلام نے ایک سیاسی جلسے سے خطاب بھی کیا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ 'نیا پاکستان پروجیکٹ' کیوں لا رہے ہیں۔ لندن پلان کی جتنی بھی میٹنگز تھیں ان میں مبشر لقمان نے اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ اس دوران میڈیا پر اس تمام منصوبے کو زیادہ سے زیادہ کوریج دینے کے لیے بھی انہوں نے بہت کام کیا تھا۔ قادری صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ امام خمینی طرز کی ایک تحریک تھی جو اگر کامیاب ہو جاتی تو اس کے بانیوں میں ان کا نام بھی شامل ہو جاتا۔