کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس: کیا حکومت غلط بیانی کر رہی ہے؟

کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس: کیا حکومت غلط بیانی کر رہی ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آج کل ہمیں روزانہ کوئی خوشخبری سنا رہی ہوتی ہے۔ ہزارہ موٹروے کا افتتاح ہو، 17 روپے کلو ٹماٹر یا نوازشریف کی انسانی بنیادوں پر لندن روانگی۔ تحریک انصاف ہر مثبت چیز کا کریڈٹ لینے میں دیر نہیں لگاتی۔ ایک اور کامیابی جس کی بنا پر آج کل وزیراعظم اور دوسرے وزرا پاکستان کی عوام کو ترقی کی نوید سنا رہے ہیں وہ ہے پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو ختم کر کے سرپلس میں لے جانا۔ کسی بھی ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی بنیادی وجہ اس ملک کی برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کی قدر میں اضافہ ہے۔

دنیا میں اکثر ممالک کو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ جہاں یہ بھی ہے کہ لوگ اوسطاً خرچ زیادہ کرتے ہیں اور اس کے مقابلے میں بچت کم کرتے ہیں۔ لوگوں کا انحصار درآمد شدہ اشیا پر بڑھ جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ آپ کے امپورٹ بل میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ دوسرا جو سب سے اہم جزو ہے وہ ہے آپ کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی پرفارمنس۔ مینوفیکچرنگ میں کمی ہونا بھی آپ کو امپورٹ کی طرف مائل کرتا ہے اور اسی وجہ کا سامنا امریکہ جیسے ملک کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے برعکس چین ہے جس کی مینوفیکچرنگ لاگت امریکہ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

جہاں چین اشیا کی مینیوفیکچرنگ میں خود کفیل ہے وہیں اس نے اپنی برآمدات میں اضافے کیلئے اپنی کرنسی کو اس کی اصل قیمت سے کم رکھا ہوا ہے اور جس پر اسے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، وہیں اس نے اپنے اسی عمل سے درآمدات پہ اخراجات کو بھی کنٹرول کیا ہوا ہے۔

اس سارے منظرنامے میں پاکستان کے حالات کو دیکھیں تو ہم ان ممالک میں سے ہیں جن کا زیادہ انحصار درآمدات پر ہوتا ہے۔ اگر ہم 2018 کی درآمد کی گئی 10 اشیا کا جائزہ لیں تو سرفہرست ہماری روزمرہ کی اشیا ہیں۔ پٹرولیم پروڈکٹ پہ ایک اندازے کے مطابق ہم نے شاید 17 بلین ڈالر سے زائد خرچ کیے ہیں جو کہ ہماری ٹوٹل امپورٹ کا 28 فیصد سے زیادہ بنتا ہے۔ اس کے علاوہ مشینری، کیمیکل، کمپیوٹر، سٹیل، ویجیٹیبل، خوردنی تیل، آئل سیڈ علیحدہ ہیں۔ یہ تمام چیزیں ہماری روزمرہ استعمال میں آتی ہیں۔ ایگریکلچرل ملک ہونے کے باوجود ہمیں اپنے ٹیکسٹائل سیکٹر جو کہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور ہماری برآمدات کا زیادہ تر حصہ بھی اسی سیکٹر پر منحصر ہے۔ اسے سپورٹ کرنے کیلئے بھی ہمیں ایک بلین ڈالر سے زیادہ کی کاٹن کو درآمد کرنا پڑا۔



اب ان حقائق کی روشنی میں اگر آپ دیکھیں کہ ایک ملک جس کا زیادہ انحصار درآمدات پر ہے، اس نے اس خسارے کو کیسے کم کیا اور اس کا اثر ملک کی معیشت پر کیسے ہوا؟ اس کا اندازہ ہم ان حقائق کو جانے بغیر نہیں لگا سکتے، جو کرنٹ اکاؤنٹ کو متاثر کرتے ہیں۔

کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس آپ کے ملک میں روزگار کی فراہمی میں اضافہ کرتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آپ کی برآمدات کی طلب آپ کی پالیسیز کی وجہ سے متاثر کن حد تک بڑھ جاتی ہے اور آپ کے شہری اپنی ملک کی بنائی اشیا کو خریدنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، جو آپ کے امپورٹ بل کو کم کر دیتا ہے۔ پاکستان چونکہ درآمدات پہ انحصار کرتا ہے، یہاں تک کہ اسے خوردنی تیل بھی درآمد کرنا پڑتا ہے اور دوسری بات پاکستان نے خطے میں ریکارڈ کرنسی ڈیویلیو کی ہے اس کے باوجود بھی پاکستان کی برآمدات میں متاثر تو کیا ایک متوقع اضافہ بھی نہیں ہوا۔

دوسری وجہ جو کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کی وجہ بنتی ہے وہ ہے کہ آپ اپنی درآمدات کو کم کر دیں۔ یہ پالیسی جہاں آپ کی معاشی ترقی کی رفتار کو کم کر دیتی ہے وہیں آپ کے ملک میں روزگار کے مواقعوں میں بھی کمی کا سبب بنتی ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کی وجہ سے ہماری معاشی ترقی دوگنی ہو جانی چاہیے تھی لیکن اس کا اثر یہ ہوا کہ ہم اپنی رفتار کو پانچ عشاریہ آٹھ سے دو اعشاریہ چار پر لے آئے۔ دوسرے عوامل جن میں آپ کی لارج سکیل مینیوفیکچرنگ سکڑ کے رہ گئی ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان کو جو نقصان اٹھانا پڑا ہے اگر اس نقصان کی لاگت کو اپنے کرنٹ اکاؤنٹ میں ایڈجسٹ کریں تو دیکھ لینا کہ ہم سرپلس میں ہیں یا مزید خسارے میں چلے گئے ہیں۔

آپ نے سعودی عرب سے 3 سال کیلئے ڈیفیرڈ پیمنٹ پہ تیل لیا اور آپ کے درآمدی ادائیگیوں کا زیادہ حصہ بھی اسی کی نظر ہو جاتا ہے۔ آپ بتائیں گے کہ ان ڈیفرڈ پیمنٹس کو کیسے ایڈجسٹ کریں گے۔ اس کے علاوہ آپ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیا جس کی وجہ سے پیٹرولیم پروڈکٹس کی کھپت میں 2018 میں 15 فیصد اور اب تک شاید 26 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہو چکی ہے۔ جس کا اثر آپ کے امپورٹ بل پر پڑا ہے۔

آٹو انڈسٹری جو پچھلے کئی سالوں سے منافع کما رہی تھی اور دوسری کئی کمپنیاں بھی پاکستان میں اپنے کارخانے لگانے کا سوچ رہی تھیں۔ آپ کی پالیسیز کی بدولت نئی کمپنیز نے کیا کارخانے لگانے تھے پرانی کمپنیز بھی اپنے آپریشنز بند کر رہی ہیں۔ نئی گاڑیوں کی درآمد تو دور کی بات انہیں اپنا پہلے سے موجود سٹاک بیچنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ اسی آٹو انڈسٹری میں ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔

ٹیکسٹائل سیکٹر جو ہماری برآمدات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آپ کی کرنسی ڈیویلیو کے بعد بھی وہ اپنی برآمدات میں کوئی خاطرخواہ اضافہ نہیں کرسکا۔ آپ کی پالیسیز کی وجہ سے کتنے یونٹ بند ہوئے اور کتنے یونٹس نے اپنی سرگرمیاں معطل کیں۔ جب وہ آپریشنل ہی نہیں ہوں گے تو کیا امپورٹ کریں گے اور اس کا آپ کے امپورٹ بل میں کیا اضافہ ہوگا۔ آپ کے ٹیکسز، ڈیوٹیز اور پٹرولیم پروڈکٹس کی قیمتوں میں اضافے پر اپٹما کے نمائندے نے جون میں کہا تھا کہ ہمارے 140 یونٹ بند ہو چکے ہیں اور 75 سے 80 بند ہونیوالے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک ملین سے زیادہ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں اور مزید پانچ لاکھ لوگ بے روزگار ہونیوالے ہیں۔

ایک اور فیکٹر انٹرسٹ ریٹ میں نمایاں اضافہ ہے۔ آپ کا انٹرسٹ ریٹ اتنا بڑھا ہے کہ کاروباری طبقہ اتنی مہنگی فسیلٹی لینے کو تیار نہیں۔ جس کی وجہ سے نا تو کوئی نئی انڈسٹری لگ رہی ہے جو باہر سے اپنی ضرورت کی مشینری درآمد کرے اور آپ کے امپورٹ بل کو متاثر کرے بلکہ پہلے سے موجود کاروباری طبقہ بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔

پچھلے سالوں میں کرنٹ اکاؤنٹ اضافے کی بنیادی وجہ سی پیک سے متعلق درآمدات تھیں۔ جس کی وجہ سے بجلی کے کارخانے تیزی سے مکمل ہوئے اور پاکستان کے انفراسٹکچر میں بہتری دیکھنے کو ملی۔ چونکہ اب سی پیک کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا اور اس کا ثمر بھی ملنے لگ گیا ہے تو ان سے متعلق امپورٹ بھی کم ہوگئی اور آپ کا امپورٹ بل بھی کم ہو گیا۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ جس میں انڈسٹریل زونز کی تعمیر شامل ہے اس کی تعمیر میں آپ کو شاید دلچسپی ہی نہیں ہے۔ اس لیے آپ کو کچھ درآمد کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔

وزیراعظم صاحب جہاں ہمیں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کی خوشخبری سناتے ہیں، وہیں ہمیں یہ بھی بتایا کریں کہ ہم نے درآمدات سے نجات حاصل کرنے کیلئے اتنے کارخانے لگا دیے ہیں جو ہماری درآمدی ضرورت کو پورا کریں گے۔ ہم نے کتنے تیل کے ذخائر دریافت کر لیے ہیں جو ہماری پیٹرولیم کی ضروریات کو پورا کریں گے۔ ہماری خوردنی تیل سے لے کر ہماری ٹیکسٹائل اور مشینری کی ضروریات اب ہم خود اپنے ملک سے پوری کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے اور آپ کو یہ سب درآمد کرنا ہے تو پھر بہتر ہوگا آپ عوام کو حقائق سے آگاہ رکھیں اور اپنی معاشی پالیسی بہتر بنائیں جس سے ملک میں معاشی سرگرمیاں بحال ہوں اور لوگ دو وقت کی روٹی عزت سے کما سکیں۔