مَکُّران بھر سے سینکڑوں لوگوں نے حق دو تحریک بلوچستان کے گْوادر دھرنے میں شرکت کی جس میں کل سے غیر معینہ مدت کے لیے گْوادر پورٹ کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اعلان کے بعد گْوادر پورٹ کے راستوں پر کینٹینرز لگا کر راستے بند کیے گئے ہیں، شہر میں بلوچستان کے دوسرے اضلاع سے پولیس کی بھاری نفری پہلے سے طلب کیا گیا ہے۔
گْوادر میں شہید لالا حمید چوک پر جاری دھرنے کو 24 دن مکمل ہوچکے ہیں۔ حق دو تحریک بلوچستان کا کل سے غیر معینہ مدت کے لیے گْوادر پورٹ کو بند کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ کل ہونے والے احتجاج کے پیش نظر انتظامیہ کی جانب سے گْوادر پورٹ کے راستوں پر کینٹینرز لگا کر گْوادر پورٹ کو جانے والی تمام راستے سیل کر دیے گئے ہیں۔ شہر میں پہلے سے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔
مَکُّران کے دوسرے کئی شہروں سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ دھرنے میں شرکت کرنے کے لیے پہنچ گئے ہیں جبکہ کل مزید لوگوں کے آنے کی اطلاعات ہیں۔
حق دو تحریک کے لیڈر مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کے آبائی شہر سُربندن میں کل مکمل شٹر ڈاؤن کی کال دی گئی ہے۔ دوسری طرف ماہی گیروں کی مختلف تنظیموں نے بھی کل سمَنْدر نہ جانے کا اعلان کیا ہے۔ ماہی گیروں کے مطابق کل 20 نومبر کو گْوادر، سربندن، پَسِّنی اور اورماڈہ کے ماہی گیر سمَنْدر میں نہیں جائیں گے اور وہ شہید لالا حمید چوک سے ریلی کی صورت میں گْوادر پورٹ کی طرف جائیں گے جہاں وہ غیر معینہ مدت کے لیے دھرنہ دیں گے۔
واضح رہے کہ پچھلے سال بھی اسی مقام پر 32 دن کے لیے دھرنا دیا گیا تھا۔ حکومت بلوچستان اور مظاہرین کے درمیان مزاکرات کے بعد دھرنا ختم کیا گیا تھا مگر حق دو تحریک کے مطابق حکومت بلوچستان نے اُن کے مطالبات پر ایک سال گزرنے کے باوجود عمل درآمد نہیں کیا۔
آج 19 نومبر کو حق دو تحریک کے لیڈر مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے رات کو دھرنے میں شریک سینکڑوں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل 20 نومبر کو وہ کفن پوش ریلی کی صورت میں گْوادر پورٹ کے طرف ہر صورت جائیں گے۔ کل موجودہ دھرنے کی جگہ خواتین مظاہرین جمع ہو کر دھرنا دیں گی۔
گْوادر کے سینئر صحافی اور گْوادر پریس کلب کے صدر سلیمان ہاشم کے مطابق کل شہر کی صورت حال کافی خراب ہوسکتی ہے کیونکہ گزشتہ 24 دنوں سے انتظامیہ نے مظاہرین کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ کل مظاہرین کو گْوادر پورٹ کی طرف جاتے ہوئے انتظامیہ ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی کرے لیکن مظاہرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ یہی لگتا ہے کہ انھیں روکنا ممکن نہیں ہوگا۔