بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اکثر اپنے اثاثے (خاندان، دوست، اور گھر بار) چھوڑ کر پڑھائی، نوکری اور بہتر مستقبل کی غرض سے پردیس کا رُخ کرتے ہیں۔ بہتر مستقبل کی اس تلاش کا خمیازہ انہیں اپنے پیارے وطن اور عزیز از جان لوگوں سے دوری کی شکل میں اٹھانا پڑتا ہے۔ دوری کے اس احساس سے چھٹکارے کے لئے وہ ایسے مواقع کی جستجو میں رہتے ہیں جو انہیں اپنے وطن کی مہک اور رنگوں کے احساس کو دیارِ غیر میں بھی بہم پہنچا سکیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی تہذیب اور اپنے رسم و رواج سے وابستہ یاد کو اپنے ہم وطنوں کے ساتھ منا سکیں اور اس طرح کچھ لمحوں کے لیے سہی، پردیس کے جھمیلوں سے جان چھڑا کر اپنی جڑوں سے وابستہ ہو جائیں، اپنے شہروں، قصبوں اور گلیوں کو یاد کریں اور ماضی کے قصے سناتے ہوئے قہقہے لگائیں۔
میونخ، جرمنی میں مقیم پاکستانیوں کے لیے ایسا ہی ایک موقع دی سٹیزنز فاؤنڈیشن (ٹی سی ایف) پاکستان کے زیرِ اہتمام ایک رنگا رنگ تقریب نے مہیا کیا۔ اس تقریب کا بنیادی مقصد اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستانی تعلیمی نظام کی موجودہ صورت حال سے آگاہ کرنا اور ان کو باور کرانا تھا کہ ان کے وطن میں ابھی بھی 84 فیصد آبادی خواندگی کی شرح سے نیچے ہے اور یہ کہ ٹی سی ایف ناخواندگی کے خلاف اپنے جہاد کے ذریعے پاکستانی بچوں کو تعلیم کے زیور سے کیسے آراستہ کر رہی ہے۔ نیز یہ کہ اوورسیز پاکستانی اس بگاڑ کو بہتری میں تبدیل کرنے کے لئے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے زیادہ سے زیادہ بچے پڑھ لکھ کر کامیاب زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔
تقریب کے مہمانِ خاص شفاعت احمد کلیم، پاکستانی قونصلیٹ فرینکفرٹ میں 'ہیڈ آف چانسلری' اور ڈپٹی قونصل جنرل تھے۔ وہ خاص طور پر اس تقریب میں شرکت کے لیے فرینکفرٹ سے آئے تھے۔ پاکستان کی مشہور اداکارہ اور گلوکارہ عائشہ عمر نے بھی اس تقریب میں شرکت کی اور اپنے فن کا جادو جگایا۔ انہوں نے اپنا نیا گانا 'ہر کوئی یار نہیں ہوندا بلیا' بھی پیش کیا۔ عائشہ عمر نے اپنا ذاتی تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنے والد کو بہت چھوٹی عمر میں کھو دیا تھا اور ان کی والدہ نے سنگل مدر کے طور پر ان کی اور ان کے بھائی کی پرورش کی۔ معاشی مشکلات کی وجہ سے ان کی والدہ کے پاس ان کی تعلیم کے لئے مطلوبہ وسائل میسر نہیں تھے مگر انٹری ٹیسٹ میں اچھی پرفارمنس کی وجہ سے انہیں لاہور کے ایک مشہور سکول نے خصوصی بنیادوں پر داخلہ دیا اور یہی تعلیم ان کے لیے خود مختار بننے میں معاون ثابت ہوئی۔
دی سٹیزنز فاؤنڈیشن ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جو 1995 میں قائم ہوا۔ اس کا بنیادی مقصد پاکستان میں بنیادی تعلیم کا فروغ، اقتصادی خود مختاری اور خواتین کی بااختیاری کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ٹی سی ایف کے زیرِ اہتمام تقریباً 2033 سکولز چلائے جا رہے ہیں اور ان میں تقریباً 301,000 طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لیے ہزاروں اساتذہ اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جرمنی میں ٹی سی ایف کو متعارف کرانے اور اس تقریب کو کامیاب بنانے میں میونخ کی پاکستانی کمیونٹی کے اراکین نعمان جاوید، ان کی اہلیہ نادیہ نعمان اور زوار منور نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔
ٹی سی ایف کے ایک عہدیدار کے ساتھ گفتگو میں یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ تر سکولز ان کی اپنی انتظامہ کے تحت چلائے جاتے ہیں اور چند ایک جگہ یہ فاؤنڈیشن پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کے تحت سکولز چلا رہی ہے۔ اس ماڈل میں سکول کی عمارت حکومت فراہم کرتی ہے اور سکول کا انتظام اور عملہ ٹی سی ایف کے تحت ہوتا ہے۔ سکولز کی تعمیر کے وقت ان کی لوکیشن کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ سکولز کمیونٹی کے وسط یعنی 500 میٹر کے دائرے میں بنائے جاتے ہیں تاکہ بچوں کو سکول تک رسائی میں آسانی ہو۔
مقررین نے اس امر پر زور دیا کہ تقریب کے شرکا کتنے خوش نصیب ہیں کہ انہیں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملے اور اب وہ اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کر چکے ہیں، مگر پاکستان میں ابھی بھی کروڑوں بچے بنیادی زیور تعلیم سے محروم ہیں۔ ٹی سی ایف اور اس جیسے دیگر ادارے جو کہ پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں، کو سپورٹ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ بچے جو کہ معاشی مشکلات کے باعث سکول نہیں جا سکتے، ہماری چھوٹی سی امداد سے تعلیم حاصل کر سکیں اور اپنے مستقبل کو روشن بنا سکیں۔
شفاعت کلیم صاحب سے گفتگو کے دوران میں نے اس امر کا ذکر کیا کہ میونخ اور گرد و نواح کے علاقوں میں بسنے والے پاکستانی خود کو پاکستانی مشنز (جو کہ برلن میں پاکستانی ایمبیسی اور فرینکفرٹ میں پاکستانی قونصلیٹ کی صورت میں موجود ہیں) سے روابط میں دُوری محسوس کرتے ہیں۔ کسی بھی سرکاری کام، جس میں ایمبیسی یا قونصلیٹ کی شمولیت ہو، جیسے پاور آف اٹارنی کو قانونی حیثیت دلوانا، نئے پاسپورٹ کا اجرا یا موجودہ پاسپورٹ کی تجدید وغیرہ، مشنز کے اوقات کار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور سفر کا وقت شامل کرنے پر عام طور پر ایک سے دو دن درکار ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ تمام سہولیات اب آن لائن بھی دستیاب ہیں، مگر بیشتر لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر مشنز میں انفرادی طور پر جا کر یہ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے اس امر سے اتفاق کیا کہ میونخ جیسے بین الاقوامی شہر میں پاکستان کا مشن میونخ اور گرد و نواح کے علاقوں میں رہنے والے پاکستانیوں کو مختلف سہولیات بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ یہ قونصلیٹ پاکستان اور جرمنی کے درمیان معاشی، ثقافتی اور عوامی روابط قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
شفاعت کلیم صاحب نے بتایا کہ چند سال پہلے میونخ میں پاکستانی قونصلیٹ کھولنے کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں۔ دراصل، انہیں پاکستان سے فارن آفس نے بطور میونخ کے قونصل جنرل مقرر کر کے جرمنی بھیجا تھا، مگر چند مالی پیچیدگیوں کی بنا پر میونخ میں قونصلیٹ کا قیام مکمل نہ ہو سکا۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ ایسی تقریبات ناصرف اپنے اصل مقصد کو حاصل کرنے میں مددگار ہوتی ہیں بلکہ ضمنی طور پر میل ملاقات، پرانی یادیں تازہ کرنے کا بہانہ بھی بن جاتی ہیں۔ ہال میں موجود اکثر شرکا کسی نہ کسی طرح اپنے شہر، گاؤں، دیہات کو یاد کرتے اور ان سے منسلک کہانیاں سناتے پائے گئے۔ اسی طرح میرے ساتھ بیٹھے وصیف عزیز صاحب نے لاہور کے اُس گولڈن ایرا کا ذکر چھیڑ دیا جب فروری کی سرد راتوں میں بسنت منائی جاتی تھی اور گلی گلی جشن اور میلے کا سماں ہوتا تھا۔ پھر مال روڈ کا ذکر آیا تو وہ چمن آئس کریم کے بغیر کیسے مکمل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بات لکشمی چوک کے تکے کباب تک آن پہنچی تھی تو میں نے بھی مشورہ دیا کہ تھوڑا آگے جا کر بیڈن روڈ پر واقع کیری ہوم ریسٹورنٹ کے بھنے ہوئے مٹن کا تذکرہ نہ کیا گیا تو زیادتی ہو گی۔ اسی طرح چانسلر کلیم صاحب نے سی ایس ایس اکیڈمی میں گزارے ہوئے دنوں کو یاد کیا اور لکشمی چوک کی مچھلی کے ذائقے کی تعریف کی۔
تقریب کا اختتام فنڈ ریزنگ سرگرمی کے ساتھ ہوا، جس میں شرکا نے دل کھول کر اس نیک مقصد کے لیے عطیات دیے اور وعدہ کیا کہ وہ آنے والے وقت میں بھی ایسے فلاحی کاموں میں حصہ لیتے رہیں گے۔