Get Alerts

کیا پنجاب میں واقعی ن لیگ کی ہوا چل پڑی ہے؟

فرض کر لیتے ہیں کہ حکمرانوں کی ہوا چل پڑی ہے تو عوام کو یہ بھی بتا دیں کہ اس ہوا کی سمت کیا ہے؟ کیا یہ راولپنڈی سے چل رہی ہے یا امریکہ سے؟ کیونکہ پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے ہواؤں کا رخ ان دونوں میں سے کسی ایک طرف ہونا ضروری ہے۔

کیا پنجاب میں واقعی ن لیگ کی ہوا چل پڑی ہے؟

کسانوں میں ٹریکٹرز کی تقسیم کی سرکاری تقر یب 'گرین پنجاب' سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا؛ مخالفین بھی کہتے ہیں کہ 'اُن' کی ہوا چل پڑی ہے۔ کیا زمینی حقائق وزیر اعلیٰ کے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں؟ کیا پنجاب میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو یقیناً حالات ویسے نہیں جیسی تصویر کشی وزیر اعلیٰ کی متحرک میڈیا ٹیم پیش کرتی ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ سنسرشپ کے موجودہ دور میں میڈیا کتنا آزاد ہے!

آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر وزیر اعلیٰ کو لگتا ہے کہ محض 8 ماہ کی وزارت اعلیٰ میں مسلم لیگ ن کی ہوا چل پڑی ہے؟ کیا پنجاب کے سرکاری اداروں میں رشوت کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ کیا کسانوں کو کھاد کی بروقت فراہمی یقینی بنا دی گئی ہے؟ کیا پولیس کی کارکردگی مثالی ہو گئی ہے؟ کیا جرائم میں کمی آ گئی ہے؟ ان سوالوں کے جواب دینا عوام کا کام ہے جو آج کل سموگ سے نبرد آزما ہیں اور وزیر اعلیٰ کو یقین ہے کہ ان کی ہوا چل پڑی ہے! ویسے پنجاب میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی وزیر اعلیٰ نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی انتظامی ٹیم تبدیل نہ کی ہو۔

پاکستان ایسا بدقسمت ملک ہے جہاں حکمرانوں کی ہوا سال کے 12 مہینے، 365 دن اور 24 گھنٹے چلتی ہی رہتی ہے، کبھی رکتی نہیں، کیونکہ اگر رک جائے تو اس کا مطلب اقتدار کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اور اقتدار تو ان حکمرانوں کو وراثت میں ملا ہے، یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہی رہتا ہے اور اسی وراثت کو حکمران ہوا کا نام دیتے ہیں۔ 75 سال ہو گئے پاکستان کی تشکیل کو، مگر کبھی یہاں عوام کی ہوا نہیں چل سکی۔

اس ملک میں آمر بھی آئے، ان کی ہوا 10، 10 سال چلی۔ انہوں نے بلا شرکت غیر پاکستان پر حکمرانی کی۔ سکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف؛ سب کی ہوا اپنے وقت میں بہت تیز چلی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ایک کے بعد ایک سانحہ سے دوچار ہوتا رہا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی ہوا بھی چلی۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب پی این اے کے بینر تلے مذہبی جماعتوں کی ایسی تیز ہوا چلی کہ ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کا خاتمہ کر گئی۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس وقت سی آئی اے نے پی این اے کی تحریک کو فنڈنگ کی تھی۔

ضیاء الحق کی آمریت کا خاتمہ ہوا تو پاکستان میں 1990 کی دہائی میں جمہوری حکمرانوں کی ہوا چل پڑی۔ پہلے محترمہ کی حکومت ختم ہوئی تو پھر اسٹیبلشمنٹ نے پنجاب میں نواز شریف کو پیپلز پارٹی کا ووٹ توڑنے کیلئے کھڑا کیا۔ نواز شریف کی ہوا بھی چل پڑی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ کی ہوا کا یہ سلسلہ دونوں طرف چلتا رہا۔ پھر 12 اکتوبر 1999 کی تاریک رات آئی جب پرویز مشرف کی ہوا چلنا شروع ہو گئی۔ اور اب اس ملک میں 'جمہوریت' کی ہوا چل رہی ہے!

حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں عوام کی ہوا کبھی نہیں چلی۔ اشرافیہ نے اس ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے، جو ہوا کے رخ کا تعین خود کرتی ہے۔ عوام کے لیے اس گھٹن زدہ ماحول میں سانس لینا بھی اب محال ہو چکا ہے۔ چلیں ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ حکمرانوں کی ہوا چل پڑی ہے تو عوام کو یہ جاننے کا حق تو کم از کم ہے کہ آخر اس ہوا کی سمت کیا ہے؟ کیا یہ راولپنڈی سے چل رہی ہے یا امریکہ سے؟ کیونکہ پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے ہواؤں کا رخ ان دونوں میں سے کسی ایک طرف ہونا ضروری ہے۔

لیکن حالیہ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ہوا کا رخ تبدیل ضرور ہوتا ہے اور اس کے لیے تین سال کا عرصہ ایک معیاری اصول ہے۔ جب اپریل 2022 میں ہواؤں کا رخ تبدیل ہوا تو اپوزیشن جماعتوں نے بھانپ لیا تھا۔ پھر ہوا کا رخ تبدیل ہو گیا اور پی ڈی ایم اتحاد (جس کی قیادت اس وقت مولانا فضل الرحمان کر رہے تھے) کو حکومت سونپی گئی۔ فروری 2024 کے انتخابات کے نتیجے کے طور پر وزارت عظمیٰ شہباز شریف کے حصے میں آئی، وہ الگ بات کہ عوام کی ہوا کا رخ کسی اور طرف تھا۔

پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے لیے ہوا کا چلنا ضروری نہیں بلکہ اس سے زیادہ اہم ہوا کی سمت ہوتی ہے۔ پاکستان کے مخصوص سیاسی حالات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد میں اقتدار کا راستہ پنجاب سے ہو کر گزرتا ہے۔

آج مریم نواز کو لگتا ہے کہ 8 ماہ وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد ان کی ہوا چل پڑی ہے جبکہ دوسری طرف اپوزیشن کو لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ میں دوبارہ اقتدارمیں آنے کے بعد اس ہوا کا رخ ایک بار پھر تبدیل ہو جائے گا۔ عوام کو اس سے غرض نہیں کہ کس کی ہوا چلتی ہے اور کس کی نہیں۔ اگر عوام کو سرکاری اسپتالوں میں صحت کی معیاری سہولتیں مل رہی ہیں، دوائیں مفت مل رہی ہیں، انصاف مل رہا ہے، قانون سب کے لیے یکساں ہے، سرکاری تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم فراہم کی جا رہی ہے تو یقین جانیں عوام کو زندہ رہنے کے لیے صرف اسی ہوا کی ضرورت ہے۔ پھر حکمرانوں کو اس پریشانی کا شکار نہیں ہونا پڑے گا کہ ان کی ہوا چل پڑی ہے یا نہیں!

ارسلان سید گذشتہ 8 سالوں کے دوران میڈیا کے کئی بڑے اداروں میں بطور پروڈیوسر کرنٹ افئیرز ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔ صحافتی اصولوں کی پاسداری، جمہوریت اور عوامی صحت، انسانی حقوق ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔