تحریک انصاف کی حکومت اور ہماری ایم بی اے کے زمانے کی تلخ یادیں

تحریک انصاف کی حکومت اور ہماری ایم بی اے کے زمانے کی تلخ یادیں
ایک زمانے میں ایم بی اے کرنے کا شوق چرایا۔ داخلہ لیا تو پراجیکٹ مینجمنٹ کی کلاس میں کل دو طالبعلم تھے۔ ہم دونوں بہت خوش تھے کہ یونیورسٹی میں پہلی اور دوسری پوزیشن پکی ہے۔ نتیجہ آیا تو پہلی دو پوزیشنز ان طلبہ نے حاصل کر لیں جنہوں نے سپلیمنٹری کے پیپر دیئے ہوئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دونوں کل دو طالبعلم ہونے کے باوجود تھرڈ پوزیشن کے حق دار قرار پائے۔

ضمنی انتخابات کے بعد صورت حال بہت حد تک واضح ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی قدر و منزلت جو ان دو ماہ میں کھوئی ہے اس کے نتائج ہر حلقے میں واضح طور پر نظر آئے ہیں۔ وہ تمام نشستیں جن کے جیتنے پر بہت گھمنڈ تھا وہی چند دنوں کی کارکردگی نے ہاتھ سے گنوا دی ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ لوگوں نے بڑھتی ہوئی قیمتوں کو مسترد کر دیا ہے، عوام نے جھوٹے وعدوں کو مسترد کر دیا ہے۔ لوگ انتقام کی سیاست سے خوش نہیں ہیں۔ لوگ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں۔ لوگ روز بہ روز ہونے والے یو ٹرنز سے مطمئن نہیں ہیں۔ لوگ گیس کی قیمتوں کے بڑھنے سے خوفزدہ ہیں۔ لوگ بجلی کے بڑھتے نرخوں سے پریشان ہیں۔ لوگ پڑول کی گرانی سے ہیبت زدہ ہیں۔ لوگ سٹاک مارکیٹ کی آئے روز تنزلی سے تنگ آچکے ہیں۔ لوگ روپے کی قدر گر جانے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔

مفروضہ یہی ہے کہ اگر عوام آپ کو اپنے ووٹوں سے منتخب کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے وہ اپنے گذشتہ حکمرانوں سے نالاں تھے اور اسی وجہ سے آپ کو منتخب کر کے اقتدار میں لائے ہیں کہ آپ جناب اس ملک کے عوام کی فلاح کے لئے کام کریں گے۔ لوگوں کو آپ سے خوشحالی کی توقع ہے۔ فلاح کی امید ہے۔ ترقی کی خواہش ہے۔ نت نئی منصوبہ بندی کے لوگ منتظر ہیں۔ لیکن اگر حکومت کے پاس نئے منصوبوں کی کوئی نوید نہ ہو، ترقی کا کوئی منصوبہ پیش منظر میں نہ ہو، بہتری کا کوئی امکان دکھائی نہ دیتا ہو تو روایتی حربہ استعمال ہوتا ہے۔ گذشتہ حکومت پر تمام الزام دھرا جاتا ہے۔ ان کے مظالم کی کہانی سنائی جاتی ہے۔ ان کی چیرہ دستیوں کی داستانیں بیان کی جاتی ہیں۔ ان کی کرپشن کے قصے گھڑے جاتے ہیں۔ ان کی نااہلی کے بارے میں پریس کانفرنس کی جاتی ہے۔ اور یہی آج تک ہو رہا ہے۔

عوام نے آپ کو اس لئے منتخب نہیں کیا کہ آپ انہیں گذشتہ حکومت کی نااہلی کی داستانیں سنائیں۔ عوام نے آپ کو اس لئے منتخب کیا ہے کہ آپ بات کو آگے بڑھائیں۔ فلاح اور بہتری کا کچھ احوال بتائیں۔ ابھی تک تحریک انصاف کسی بھی معاشی منصوبے کے بارے میں کوئی واضح حکمت عملی اختیار کرنے سے قاصر رہی ہے۔ ہر وہ منصوبہ جس کا آج اعلان ہوتا ہے اس کی اگلے دن تردید آ جاتی ہے۔ ہر وہ وعدہ جو آج کیا جاتا ہے اگلے دن اس سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ ہر وہ منصوبہ جس کا آج اعلان کیا جاتا ہے چند ہی دنوں میں اس سے انکار کی خبر شائع ہو جاتی ہے۔ اس طرح حکومت کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متزلزل ہو جاتا ہے۔ سٹاک مارکیٹ بھی لرزہ براندام رہتی ہے۔ بیرون ملک تعلقات پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ دوست ممالک شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دشمن ممالک حوصلہ پکڑتے ہیں۔

معاشی پالیسیوں میں استحکام وقت کی اہم ضرورت ہے اور اسی ضرورت کو پس منظر میں رکھ دیا گیا ہے۔ آپ کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں صرف گذشتہ حکومت کی خطائیں بتانے کے لئے چند چرب زبان لوگ ہیں جو اپنے کام میں طاق ہیں۔ لیکن اس طرح حکومتیں نہیں چلتیں۔ واضح حکمت عملی درکار ہوتی ہے اور اسی کا فقدان نظر آ رہا ہے۔

ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ جن حالات میں تحریک انصاف کو حکومت ملی ہے اس سے زیادہ آئیڈیئل حالات نہیں ہو سکتے۔ شاید پہلی دفعہ ایسا ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی رخنہ نہیں ہے۔ فاضل عدلیہ کے فیصلے بھی تحریک انصاف کی مدد کرتے نظر آ رہے ہیں۔ عدلیہ، فوج اور سول حکومت پوری شدت سے جمہوریت کے اصول پر کاربند ہیں اور ایک ہی پیج پر نظر آ رہے ہیں۔ مخالف سیاسی جماعتیں زیر عتاب ہیں۔ پہلے نواز شریف اور مریم نواز جیل یاترا کر چکے ہیں، اب شہباز شریف اسی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کی مسلسل خاموشی حکومت کو تقویت دے رہی ہے۔ شہاز شریف سب کو یہ بتا رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ مگر ابھی بھی یہ بتانے سے پر ہیز کر رہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور یہ انتقامی کارروائی کس کی جانب سے ہو رہی ہے؟ اپوزیشن کی اسمبلی میں ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے مگر اس سے زیادہ منقسم اپوزیشن ملکی تاریخ میں کبھی نہیں رہی۔ سب اپنی اپنی جان بچانے کے لئے اپنی اپنی مرضی سے متحد یا منقسم ہو جاتے ہیں۔ میڈیا میں عمران خان ہمیشہ سے مقبول رہے ہیں۔ زیادہ تر صحافی عمران خان کی حکومت کے حامی ہیں۔ عمران خان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہوتے ہیں۔ مخالف آوازیں اگرچہ ضرور ہیں مگر شور اتنا ہے کہ وہ آوازیں سنائی نہیں دی جا رہیں۔ دنیا عمران خان کو جانتی ہے۔ وہ پاکستان کے ایک بہت بڑے ہیرو رہے ہیں۔ لوگ ان کو چندہ دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔

نیب اگر چہ ایک آذاد ادارہ ہے مگر شومئی قسمت سے نیب کے فیصلے عمران خان اور ان کی حکومت کے حق میں جا رہے ہیں۔ اس ملک کے عوام ابھی تک حالیہ مہنگائی سے اس حد تک تنگ نہیں آئے کہ سڑکوں پر آ جائیں۔ اپوزیشن کی جانب سے فی الحال کسی دھرنے، لانگ مارچ اور احتجاجی تحریک کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔

ان حالات میں تحریک انصاف کو سمجھیں ایک واک اوور مل گیا ہے۔ مخالف ٹیم میدان میں موجود نہیں ہے۔ سارا میدان ہی آپ کا ہے۔ تنقید کرنے والا کوئی موجود نہیں۔ اعتراض کرنے والے کہیں دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ مخالفت کرنے والا میڈیا نرم دل ہو چکا ہے۔ مخالف آوازیں چپ ہو گئی ہیں۔ بدزبان لوگوں کی زباں بندی کر دی گئی ہے۔ کھل کر کھیلنے کی اجازت ہے۔ ہر مہرہ چلنے کی اجازت ہے۔ ہر فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ جس کو چاہیں وزیر مقرر کر یں ۔ جس کو چاہیں مشیر بنا دیں۔ جس ملک سے چاہیں رابطے استوار کریں۔ جس ملک سے چاہیں رابطے منقطع کر لیں۔ روپے کی قدر اپنی مرضی سے گرائیں اور بڑھائیں۔ پولیس ریفارم کریں۔ پچاس لاکھ گھر بنائیں یا دس ارب درخت لگائیں، سب مقتدر قوتیں آپ کے فیصلوں کی تو ثیق کرتی نظر آتی ہیں۔ سب راستے آپ کو منزل پر پہچانے کے لئے تعمیر کیے گئے ہیں۔ سب امیدیں آپ سے ہیں۔

ان حالات میں اگر تحریک انصاف کی حکومت ڈلیور نہیں کرتی، عوام کی فلاح کے حیلے دریافت نہیں کرتی، ترقی اور خوشحالی کو مقصد نہیں بناتی، تمام تر قوتوں کی تائید کے باوجود اگر عوام کی تائید حاصل نہیں کرتی تو اپوزیشن کے جماعتیں سامنے آ جائیں گی اور تحریک انصاف کا وہی حال ہو گا جو حال ہمارا ایم بی اے میں ہوا تھا۔

ایک زمانے میں ایم بی اے کرنے کا شوق دل میں چرایا۔ ایم بی میں داخلہ لیا تو پراجیکٹ مینجمنٹ کی کلاس میں میں کل دو طالبعلم تھے۔ ہم دونوں بہت خوش تھے کہ یونیورسٹی میں پہلی اور دوسری پوزیشن پکی ہے۔ نتیجہ آیا تو پہلی دو پوزیشنز ان طلبہ نے حاصل کر لیں جنہوں نے سپلیمنٹری کے پیپر دیئے ہوئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دونوں کل دو طالبعلم ہونے کے باوجود تھرڈ پوزیشن کے حق دار قرار پائے۔