Get Alerts

عمران خان نیب کو استعمال کرتے رہے۔ یہ رہے 5 ثبوت

عمران خان نیب کو استعمال کرتے رہے۔ یہ رہے 5 ثبوت
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 19 اکتوبر کو اپنے ایک انٹرویو میں تازہ انکشاف کیا ہے کہ نیب ان کے دور حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ تھی۔ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے کہا کہ نیب کے ذریعے سے اپوزیشن کے لوگوں کے کیسز پر فیصلے کروائے جائیں۔

عمران خان کے اس بیان سے ایک حقیقت تو واضح ہو گئی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے لئے نیب کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان کا دوسرا بیان کہ نیب اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں تھا تو یہ بات ماضی کے واقعات کے برعکس جاتی ہے۔

عمران خان نے جولائی 2019 میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران  واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی تارکین وطن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کہتا تھا مجھے پکڑ کے دکھائیں، ہم نے اس کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا۔ عمران خان شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری کو اپنا ذاتی کارنامہ قرار دے رہے تھے۔ آج ان کا یہ کہنا کہ نیب ان کے کنٹرول میں نہیں تھا محض ایک روایتی یو ٹرن ہے۔ شاہد خاقان عباسی کے اوپرعمران خان کی ایما پر جو ریاستی جبر ہوا وہ انتقامی کارروائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ان سب کارروائیوں میں نیب کو بطور ایک مہرہ استعمال کیا جاتا رہا۔

اسی طرح جولائی 2019 میں ہی طیبہ گل کیس سامنے آیا جس میں طیبہ گل نامی ایک خاتون کی اس وقت کے چیئرمین نیب کی جانب سے اخلاق سے گرے ہوئے پیغامات اور آڈیو ریکارڈنگز سامنے آئیں۔ 2022 میں عمران خان کے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد طیبہ گل نے سلیم صافی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ عمران خان نے طیبہ گل کی چیئرمین نیب جاوید اقبال کے ساتھ ویڈیوز کو استعمال کرتے ہوئے نیب سے اپنے کیسز ختم کروائے۔ طیبہ گل نے مزید الزام عائد کیا کہ عمران خان نے ان کی اور چیئرمین نیب کی ویڈیوز کو استعمال کرتے ہوئے چیئرمین نیب کو بلیک میل کیا اور ان کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کیسز بنانے میں استعمال کیا۔

طیبہ گل کا کہنا تھا کہ انہوں نے چیئرمین نیب کے خلاف وزیر اعظم پورٹل پر شکایت کی تھی اور ان کو وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے وزیر اعظم ہاؤس بلایا تھا۔ ان کو انصاف کی یقین دہانی کرواتے ہوئے ان سے ویڈیوز لے کر دو دن بعد ان کی مرضی کے خلاف ویڈیوز نشر کر دی گئیں۔

طیبہ گل کا مزید کہنا تھا کہ ان کو اور ان کے خاوند کو ڈیڑھ ماہ تک وزیر اعظم ہاؤس میں ان کی مرضی کے خلاف رکھا گیا۔ اور اس دوران ویڈیوز کو ریلیز کر کے چیئرمین نیب کو بلیک میل کر کے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو گرفتاری سے بچایا گیا۔ اس کے بعد ان رہنماؤں کے خلاف کیسز کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا۔

طیبہ گل نے جون 2022 میں سلیم صافی کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے موقف کو دہرایا کہ ان کا مقصد چیئرمین نیب کو بلیک میل کرنا نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے ویڈیوز کو آن ایئر کیا تھا۔ انہوں نے اس شکایت کی درخواست کو پیش کیا تھا جو انہوں نے وزیر اعظم پورٹل پر دی تھی۔ مگر وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور ان کے دیگر عملے نے چیئرمین نیب کو سیاسی مقاصد کے لئے بلیک میل کرنے کے لئے ان ویڈیوز کو استعمال کیا۔

طیبہ گل کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح عمران خان اور ان کے رفقا نے چیئرمین کو یرغمال بنا کے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعما ل کیا۔ چیئرمین نیب کی اس دور میں عمران خان کے سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیوں سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ عمران خان اور ان کی حکومت کے ہاتھوں یرغمال تھے۔ آج عمران خان کا یہ کہنا کہ نیب ان کے کنٹرول میں نہیں تھا حقیقت کے منافی نظر آتا ہے۔

مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے خواجہ محمد آصف نے جب عمران خان کی موجودہ اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف گفتگو کی تو ان کو نیب نے ایک کیس میں اٹھا لیا۔ ان کو بھی بظاہر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ نیب بعد میں ان کیسز کو ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

سابق ڈاریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن بارہا اپنے انٹرویوز میں بتا چکے ہیں کہ کس طرح ان کو مسلم لیگ (ن) اور مریم نواز کے خلاف جھوٹے کیسز بنانے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور کس طرح وزیر اعظم عمران خان نے ان پر دباؤ ڈالا۔ بشیر میمن کے مطابق جب انہوں نے انتقامی کارروائیوں کا حصہ بننے سے انکار کیا تو سیاسی مخالفین کے خلاف وہی سب کیسز بنانے کے لئے نیب کو استعمال کیا گیا۔

عمران خان کی حکومت کے دور میں اپوزیشن کے خلاف نیب نے بے شمار کیسز بنائے۔ آصف علی زرداری، فریال تالپور، مریم نواز، شہباز شریف، خورشید شاہ، خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، مفتاح اسماعیل اور بہت سارے افراد ہیں جو نیب کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ سب کچھ نیب عمران خان اور ان کی حکومت کی مرضی کے بغیر کر رہا تھا تو یہ بات ماننے میں نہیں آتی۔ عمران خان صاحب حکومت کے چھن جانے کے بعد ہر الزام اسٹیبلشمنٹ پر لگا کر اپنی جان چھڑوانا چاہتے ہیں۔ اور اس مقصد کے لئے حقائق کو توڑنا مروڑنا ان کے نزدیک شاید مکمل طور پر جائز ہے۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔