سندھ اوربلوچستان میں پانی کی تقسیم کا مسئلہ دہائیوں پرمحیط ہے۔ اب دونوں صوبوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے بعد بھی مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سندھ اور بلوچستان میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہونے کے باوجود پانی کی تقسیم کا مسئلہ حل نہ ہونا باعث تشویش ہے۔ اس صورت حال سے زمینداروں کو اربوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔
بلوچستان کو پانی سے متعلق درپیش مسائل کے حل کیلئے سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے سر جوڑ لئے۔ دریائے سندھ سے بلوچستان کے حصے کے پانی کی چوری کے مسئلہ کے بعد حب ڈیم سے کراچی کو پانی کی فراہمی کے معاملے کے حل کیلئے دونوں صوبوں نے کمیٹی قائم کر دی ہے۔ دونوں صوبوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے ارسا ایکٹ میں کی جانے والی ترمیم کو مسترد کر دیا ہے۔
سندھ اور بلوچستان کے مابین آبی تقسیم کے امور طے کرنے کیلئے دونوں صوبائی حکومتوں نے مشاورت کے بعد قابل عمل تجاویز مرتب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس حوالے سے گذشتہ دنوں کوئٹہ میں اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کی۔ اجلاس میں دونوں صوبوں کے مابین آبی امور کے حل کیلئے کمیٹی قائم کر دی گئی۔ کمیٹی میں دونوں صوبوں کے سیکرٹریز آبپاشی اور ارسا ممبران شامل ہوں گے۔ اجلاس میں وفاقی حکومت کی جانب سے ارسا ایکٹ میں ترمیم کو سندھ اور بلوچستان نے متفقہ طور پر مسترد کر دیا ہے۔
صوبائی وزیر آب پاشی بلوچستان میر صادق عمران کا مؤقف ہے کہ وفاقی حکومت ارسا ایکٹ کے اندر جو آئینی ترمیم کر رہی ہے سندھ اور بلوچستان دونوں صوبائی حکومتیں اس ترمیم کو مسترد کرتی ہیں۔ صادق عمران کا کہنا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے درمیان پانی کی تقسیم کے مسئلہ پر کافی بات چیت کی گئی اور جو بھی معاملات ہیں انہیں باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ارسا ایکٹ میں ہونے والی حالیہ ترمیم کو مسترد کرتا ہے اور صوبائی اسمبلی سے اس پر قرارداد بھی منظور کروائی جائے گی۔
وزیر آب پاشی سندھ جام خان شورو کہتے ہیں کہ سندھ نے متفقہ قرارداد کے ذریعے ارسا ایکٹ میں ترمیم کو مسترد کیا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آئین، قانون اور صوبائی خود مختاری پر حملہ ہے۔ پہلے واپڈا پانی کی تقسیم کرتا تھا، پھر متفقہ طور پر سب نے ارسا کا قیام کیا جس میں وفاق اور تمام صوبوں کی نمائندگی موجود تھی لیکن اب یک جنبش قلم سارا اختیار واپس لیا جانا قابل قبول نہیں ہے۔ قانون کہتا ہے کہ صوبے خود اپنے پانی کے مالک ہیں، ایسے میں ارسا ایکٹ میں ترمیم 18ویں ترمیم کی نفی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پروپوزل آنا جمہوری حکومت میں بری چیز نہیں، لیکن یہ آئین سے متصادم ہے۔
وزیر آبپاشی سندھ کا سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ارسا کے قیام کے وقت 117 ایم ایف پانی صوبوں میں تقسیم کیا گیا تھا، سندھ کو اس تقسیم پر بھی اعتراض تھا لیکن ابھی تک منظور شدہ ارسا ایکٹ کے مطابق پانی نہیں ملتا جس کا اثر بلوچستان پر بھی پڑتا ہے۔
بلوچستان میں پانی کی کمی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے حب ڈیم، کیر تھیر کینال، خیر دین کینال کے حوالے سے وزیر اعلیٰ بلوچستان نے بات کی کہ ہم نے کمیٹی بنا دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کا پانی کا حق بھی سندھ کو نہیں مل رہا جس کی وجہ سے بلوچستان کو پانی مقررہ معاہدہ کے مطابق نہیں مل رہا۔ بلوچستان اور سندھ حکومت مل کر وفاق سے بات کر کے دونوں صوبوں کو حق دلوائیں گی۔
واضح رہے کہ بلوچستان کو رواں سال پٹ فیڈر اور کیر تھیر کینال میں پانی کی شدید قلت کا سامنا رہا۔ بلوچستان کو کوٹے کے نصف سے بھی کم پانی کی فراہمی کیے جانے سے صوبے کے زمینداروں کو اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ صوبے کے آبی ماہرین اور زمینداروں کا کہنا ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہونے کے باوجود یہ مسئلہ حل نہ ہونا باعث تشویش ہے۔
بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے جبکہ وفاقی حکومت 28 ہزار زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقل کر رہی ہے۔
ایک طرف سندھ اور بلوچستان کے درمیان پانی کی تقسیم کا مسئلہ جاری ہے تو دوسری طرف بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ ایسے میں صوبے میں زمینداروں اور عام عوام کو پانی کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں۔ زمینداروں کو پانی کی فراہمی کے لئے وفاقی حکومت نے ایک ایسے وقت میں کہ جب بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے، صوبے میں زرعی مقاصد کے لئے ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقلی کے 55 ارب روپے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ تاہم ماہرین آب زیر زمین پانی کی سطح گرنے اور مستقبل میں اس کے زراعت اور انسانی زندگی پر منفی اثرات کے حوالے سے خطرناک قرار دے رہے ہیں۔
کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بیش تر علاقوں میں قلت آب کا مسئلہ گھمبیر شکل اختیار کر رہا ہے۔ زیادہ تر برساتی پانی کم ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں زراعت کا دارومدار زیر زمین پانی پر ہی ہے۔ یہی نہیں، پینے کے لئے بھی یہی ذریعہ بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ایسے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے صوبے کے 28 ہزار زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقل کرنے کے منصوبہ پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے جس پر ماہرین آب تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
ماہر آبی امور سید بشیر احمد آغا سابق ڈی جی ایگریکلچر انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ جو ہمارے ڈسٹرکٹ ہیں بالائی علاقوں کے قلعہ عبداللہ، مستونگ، پشین، کوئٹہ، سوراب، قلات، یہاں پہلے سے زیر زمین پانی کی سطح 800 سے لے کر 1000 فٹ تک ہے، اگر پانی کو اسی طرح بے دریغ نکالتے جائیں گے تو آنے والی نسلوں کا پانی بھی استعمال کریں گے۔ لہٰذا واٹر ٹیبل پر اس کے بہت بھیانک اثرات پڑیں گے۔
سابق ڈائریکٹر پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورس بلوچستان کہتے ہیں کہ حکومتی سبسڈی کی وجہ سے زراعت کے لئے زیر زمین پانی کے استعمال میں 100 فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ محکمہ آبپاشی کے مطابق صوبے کے 20 اضلاع میں زیر زمین پانی کی سطح اوسطاً 400 فٹ گر چکی ہے۔ اب ٹیوب ویلوں کی سولر پر منتقلی کے بعد زیر زمین پانی کی سطح 50 فیصد مزید نیچے گر سکتی ہے جس کے تناظرمیں زمینداروں میں آگہی کی ضرورت ہے۔
ایف اے او سے وابستہ آبی ماہر روبینہ وہاج کا کہنا ہے کہ منطق کی بات یہ ہے کہ اگر پانی کے استعمال کے حوالے سے زمینداروں کو فری لائسنس ملے گا تو ظاہر ہے پانی کے زیادہ استعمال سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہو گی۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مسلسل زیر زمین پانی نکالے جانے کی وجہ سے کئی علاقوں میں زمین دھنسنا اور اس میں دراڑیں پڑنا بھی شروع ہو گئی ہیں۔ بظاہر زرعی ٹیوب ویلوں کی سولر پر منتقلی سے زمینداروں کو پانی کے استعمال میں کھلی چھوٹ مل جائے گی جس سے ناصرف مستقبل میں انسانی زندگی بلکہ زراعت اور ماحولیات پر بھی خوفناک اثرات مرتب ہوں گے جس کی روک تھام کے لئے مؤثر پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور آبی ماہر پروفیسر ڈاکٹر ظہور بازئی کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ ان ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک آگہی پروگرام بھی شروع کرے اور ان کو یہ بتائے کہ بلوچستان میں پہلے سے ہی زیر زمین پانی کی سطح ناصرف کم ہے بلکہ اس میں مزید تیزی سے گر رہی ہے، لہٰذا اگر وہ دانش مندی سے استعمال نہیں کریں گے تو آنے والے وقت میں اس کا بہت بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔