پشاور: تعلیم سول انجنئرنگ میں تین سالا ڈپلومہ کورس لیکن جنس خواجہ سرا، پیشہ موسیقی کی محفلوں میں رقص کرنا اور ترجیح خواجہ سرا کی شناخت کے ساتھ جینا مرنا اور اس کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا۔
یہ کہانی ہے 22 سالہ خواجہ سرا ڈولفن آیان کی جس کا اصل نام تو ماہین محمد ہے لیکن وہ ڈولفن آیان کے نام سے مشہور ہیں۔ ڈولفن آیان کا تعلق بنیادی طورپر خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے ہے۔ تاہم، تین سال پہلے گھر چھوڑنے کے بعد سے وہ پشاور میں اپنے گرو کے ہمراہ رہائش پذیر ہیں۔
ڈولفن کو بچپن ہی سی انہی طعنوں، نفرتوں اور القابات کا سامنا رہا جو عام طورپر تمام خواجہ سراؤں کو ساری زندگی کرنا پڑتا ہے جب کہ ہمارا معاشرہ ایسے افراد کے لئے جہنم سے برا سمجھا جاتا ہے جہاں ان کی جگہ یا تو قبرستان ہوتی ہے یا پھر گھر کی دہلیز سے باہر۔
ڈولفن کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے نیا دور اردو کو بتایا کہ بچپن ہی سے انہیں گھر اور پڑوس میں عجیب و غریب ناموں سے پکارا جاتا تھا، کوئی شرارت کرتا تو کوئی دھکہ دیتا اور آوازیں کسنا تو معمول کی بات ہوا کرتی تھی۔
’بچپن میں جب گھر سے باہر نکلتی تو لوگ مجھےکہتے کہ تم ہجڑہ (خواجہ سرا) بنو گے۔ اس وقت مجھے خود بھی یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ خواجہ سرا کیا ہو تا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں دوسرے لوگوں سے مـختلف ہوں، نہ میں لڑکیوں کی طرح ہوں اور نہ لڑکا ہوں‘۔
انہوں نے کہا کہ بچپن انہوں نے عام لڑکوں کی طرح ہی گزارا ہے، کبھی بال بڑے کیے اور نہ کبھی لڑکیوں والے کپڑے پہنے لیکن اس کے باوجود لوگ ان کے والدین کو کئی قسم کی شکایاتیں کیا کرتے تھے۔ انہیں طرح طرح کے طعنے دینا معمول بن گیا تھا، جس سے ان کے والدین دل برداشتہ ہوئے اور بالآخر انہیں گھر سے نکال دیا گیا۔
ڈولفن نے گورنمنٹ ٹیکنالوجی کالج پشاور سے سول انجینئرنگ میں تین سالہ ڈپلومہ کورس کیا ہے۔ وہ کچھ وقت کے لئے پشاور کے مشہور تعلیمی ادارے ایڈورڈز کالج کی طالبہ بھی رہ چکی ہیں۔
’میٹرک تک مجھے والدین نے سپورٹ کیا لیکن اس کے بعد میں نے ساری تعلیم اپنے خرچے پر حاصل کی، موسیقی کی محفلوں میں شرکت کر کے جو پئیسے ملتے تھے ان کی بچت کر کے میں تعلیم حاصل کرتی تھی۔‘
ڈولفن نے یورپی ملک قبرص میں چار مہینے تک اپرنٹس شپ بھی کی لیکن ان کے اخراجات بھی ان کی طرف سے خود برداشت کیے گئے۔
ان سے جب سوال کیا گیا کہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود وہ کیوں اس پیشے میں رہنا چاہتی ہیں، کیا یہ ان کا شوق ہے یا مجبوری، تو ڈولفن کا کہنا تھا کہ ایک ڈپلومہ کرنا پاکستان جیسے ملک میں کوئی اتنی بڑی تعلیمی قابلیت نہیں سمجھی جاتی جس سے انہیں کوئی اچھی نوکری ملے اور جس سے ان کے تمام اخراجات بھی پورے ہوں۔
’میری یہ دلی خواہش رہی ہے کہ میں مزید تعلیم حاصل کروں لیکن یہاں بھی وسائل آڑے آ رہے ہیں۔ اگر حکومت یا کوئی رفاہی ادارہ اس ضمن میں میری معاونت کرتا ہے تو اس کے لئے میں یہ پیشہ چھوڑنے کے لئے بھی تیار ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے ساتھ رہنا ان کا اپنا فیصلہ ہے اور جس پر انہیں فخر بھی ہے کیونکہ یہی وہ برادری ہے جن کی وجہ سے انہیں شناخت ملی ہوئی ہے۔
’اسی خواجہ سرا کمیونٹی نے مجھے سب سے پہلے سہارا دیا کیونکہ مجھے جب گھر سے نکالا گیا تو کوئی مجھے لینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے مجھے اپنایا اور یہ میرے لئے سب کچھ ہیں‘۔
پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں ایک عرصے سے خواجہ سرا تشدد اور حملوں کے زد میں رہے ہیں۔ اب تک کئی خواجہ سرا ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
ڈولفن کا کہنا ہے کہ جب سے سوشل میڈیا اور بعض ٹی وی چینلز پر ان کے کچھ انٹرویوز نشر ہوئے ہیں، انہیں بھی رشتہ داروں کی طرف سے قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چند دن پہلے بھی ان کے ایک رشتہ دار کا فون آیا اور انہیں لمبا لیکچر دیا گیا جس میں کہا گیا کہ ان کے والدین بھی سخت ناراض ہیں اور کہتے ہیں کہ برادری میں ان کی عزت خاک میں مل گئی ہے۔
’جب میں چھوٹا تھا اس وقت بھی مجھے مرضی کی زندگی نہیں جینے دی گئی اور اب جب میں گھر چھوڑ چکا ہوں تب بھی وہی حالات ہیں اور وقتاً فوقتاً مجھے گھر سے کوئی دھمکی آمیز پیغام بھی دیا جاتا ہے‘۔
ان کے مطابق کسی دن اگر ان کے خاندان کے کسی فرد یا رشتہ داروں کو کسی نے طعنہ دیا یا انہیں میری کوئی بات بری لگی تو انہیں بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور انہیں اس بات کا بخوبی احساس اور اندازہ بھی ہے۔
ڈولفن نے کہا کہ اگرچہ وہ کئی سالوں سے والدین اور بھائی بہنوں سے نہیں ملی ہیں لیکن وہ ہر وقت ان کے دل میں رہتے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسی رات گزری ہوگی کہ وہ ان سے جدا ہونے کے غم میں روئی نہ ہوں۔
مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔