Get Alerts

لال کرتی کی تاریخی حقیقت

لال کرتی کی تاریخی حقیقت
تحریر: (ارشد سلہری) ڈاکٹر شاہد صدیقی کے کالم راولپنڈی کی لال کرتی میں ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اپنے استاد کی زبانی جو لال کرتی کی تعریف بیان کی ہے۔ اس پر حیرانگی ہوئی کہ بڑے بڑے کالم نگار بھی سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق کیے اپنے کالموں میں رقم کر دیتے ہیں۔ جسے ہمارے جیسے کم علم پلے باندھ کر آگے بیان کرتے رہتے ہیں۔ جیسے لیمارک کی ارتقاء کی تھیوری جو بندروں کے ارتقائی عمل سے انسان شکل میں بتدریج ترقی کے بارے میں ہے، جو ڈارون کے متھے جڑی ہوئی ہے اور ہر پڑھا لکھا اور مہان لکھاری بڑے دھڑلے سے ڈارون کے نام سے بیان کردیتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے، رکا نہیں ہے۔ شاید رکے بھی نہ کیوں کہ ہم کسی کی بات تسلیم کرنے کے عادی نہیں ہے بلکہ الٹا اسے لعنت ملامت کرتے ہیں اور گندی گالیاں بھی دیتے ہیں۔ جو کچھ سن رکھا ہے، اس پرقائم رہنا ہماری مستقل مزاجی کا بھرم ہے۔

ڈاکٹر شاہد صدیقی کے استاد کے مطابق لال کرتی کی جگہ پہلے برٹش انفنٹری بازار تھا اور رائل برٹش انڈین آرمی کے یونیفارم کی لال رنگ کی شرٹ کے باعث چھاونی کے محلے کا نام لال کرتی مشہور ہوگیا ہے۔ وکی پیڈیا نے بھی یہی تعریف کی ہے، ضرور ایسا ہوگا مگر کسی ایک شہر میں ہوگا۔ ہر اس شہر کا ایک ہی قصہ نہیں ہے۔ یہاں چھاونی کے ساتھ لال کرتی موجود ہے، لال کرتی ہر چھاونی کا باقاعدہ تعمیر کردہ علاقہ ہے۔

شاید ڈاکٹر شاہد صدیقی کے استاد محترم نے بھی وکی پیڈیا پر ہی انحصار کیا ہے، دوسرے شاعر و ادیب، کالم نگار رضی الدین رضی صاحب نے بھی یہی کیا ہے۔ ملتان میرا رومان کے نام سے ایک تفصیلی مضمون میں لال کرتی کے بارے میں بیان کیا ہے کہ لال کرتی والیوں کی وجہ سے چھاونی کے محلہ کا نام لال کرتی پڑ گیا ہے۔ لال کرتی ریڈ لائٹ ایریا کا بگڑا ہوا نام ہے۔ پاکستان سمیت تمام وہ علاقے جو تاج برطانیہ کے زیر تسلط تھے وہاں انگریز سرکار کی بنائی جانے والی فوجی چھاونیوں کے ساتھ ریڈلائٹ ایریاز بھی بنائے گئے تھے۔

جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں، بالخصوص وہ چھاونیاں جن میں لام پر آئے فوجی ٹھہرائے جاتے تھے۔ لام یعنی لمبے عرصے کے لئے بلائے جانے والے وہ فوجی جو تاج برطانیہ کے ہر کونے سے آتے تھے۔

لال کرتی یعنی ریڈلائٹ ایریا، یہ باقاعدہ پلاننگ سے بنائے گئے علاقے ہیں جن میں دو دو مرلے کے گھر تنگ اور تاریک گلیاں اور مرکزی دروازے رکھے گئے ہیں۔ گلیاں دانستہ کھلی رکھنے کی بجائے تنگ اور تاریک رکھی گئی ہیں کہ گاڑیوں کا گلیوں میں گزر نہ ہوسکے اور خاص کر بڑے فوجی افسر گاڑیوں میں ادھر کا رخ نہ کریں۔ اک قسم کی کچھ پردہ داری کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ گھروں کے درمیان ایسے چھوٹے چھوٹے بازار بنائے گئے ہیں، یہاں سے گفٹ، سنگار اور غسل کے لوازمات دستیاب ہوتے تھے۔ دیکھنے کو بازار عورتوں کا لگتا ہے، لیکن زیادہ خریدار فوجی جوان ہوتے جو بازار کو بازاری کہتے تھے۔ کچھ شہروں میں لال کرتی اپنی پرانی ہیئت میں موجود ہے۔

راولپنڈی کی لال کرتی میں جو پرانے گھر ہیں، آج بھی موجود ہیں مگر مکین بدل چکے ہیں اور لال کرتی کے چاروں طرف اب کمرشل سرگرمیاں ہیں۔ لوگوں نے گھروں کو دکانوں میں بدل لیا ہے۔ مگر کچھ گلیاں اب بھی باقی ہیں، جن کے اندر گھر موجود ہیں اور نئے مکین رہائش پذیر ہیں۔ چند گھرانے ایسے موجود ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جدی پشتی لال کرتی کے ہی رہائشی ہی۔

گھروں کا طرز تعمیر اور گھروں میں کمرے، باتھ اور دروازے خاص نوعیت کے بنائے گئے ہیں۔ دو مرلے کے گھر ایسی عورتوں کو الاٹ کیے جاتے تھے جو لام پر آئے فوجیوں کو سیکس کی سہولت مہیا کرتی تھیں۔ انگریز سرکار کی جانب سے سیکس ورکر عورتوں کو کچھ معاوضہ تنخواہ کی صورت میں ملتا تھا۔ عورتوں کے پاس آنے والے فوجی بھی کچھ ضرور دیکر جاتے تھے۔ باقی تمام تر بنیادی ضروریات کی سہولتیں چھاونی انتظامیہ کی جانب سے دی گئی تھیں۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔